اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت زرعی مصنوعات پر خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔وفاقی وزیر غلام سرور خان اپنی ہی حکومت پر برس پڑے۔
رکن کمیٹی محمد فاروق اعظم ملک نے شکوہ کیا کہ محکمہ زراعت کے افسران کو کہیں کام کریں نہ کریں کم سے کم ہمارا فون اٹھا لیا کریں، محکمہ زراعت کے دفتر جائیں تو ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے اسمبلی کل ختم ہونیوالی ہے۔
زرعی مصنوعات پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں وفاقی وزیر غلام سرور خان اپنی ہی حکومت پر برس پڑے۔ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا کہ گندم کی پیداوارہر سال کم ہوتی جا رہی ہے، آج کل کا موسم گندم کی فصل کو متاثر کرتا ہے، میں کابینہ میں بیٹھ کر بے بس ہوں، ڈھائی تین سال میں زرعی سیکٹر کیلیے ہم کچھ نہیں کر سکے، زرعی سیکٹر کو ہم ریلیف نہیں دے سکے۔
غلام سرور خان نے کہا کہ حکومت نے انڈسٹری، سروسز سب کو ریلیف دیا مگر زراعت کو نہ دیا، 52 بلین کے پیکج کا اعلان ہوا تھا کم از کم اس کو یقینی بنایا جائے اور وہ ریلیز ہو، غیر زرعی طبقے کی آواز میں زیادہ اثر ہے، ہم کہاں کہاں سے گندم امپورٹ کر رہے ہیں لیکن اپنے زمیندار کو حکومت کچھ دینے کو تیار نہیں۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں بھی میں نے پوچھا تھا کہ گندم کہاں کہاں سے امپورٹ کر رہے ہیں، امپورٹڈ گندم 2400 روپے من پڑ رہی ہے اپنے زمیندار کو 1800 دے رہے ہیں، اتنا ظلم اپنے زمیندار کیساتھ نہ کیا جائے، سندھ نے جو ریٹ 2 ہزار رکھا وہ حقیقت پر مبنی ہے، گزشتہ سال ڈی اے پی 28 سو روپے تھی اس سال پانچ ہزار ہےخدا کا خوف کرو، میں کابینہ میں ہوں مگر دکھ ہوتا ہے وہاں بھی ہماری بات سنی نہیں جاتی، کابینہ میں بزنس مین کی بات سنی جاتی ہے۔