چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں شاہراہ قائدین پر قائم ٹاور گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پورے بلڈنگ ہی نالے پرکھڑی ہے۔
انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ڈی جی ایس بی سی اے) کی سرزنش بھی اورکہا ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، کل آپ سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے۔
وزیرا علیٰ ہاوس پر عمارت بنا دیں گے، کوئی کمپوٹیراز ریکارڈ کیوں مرتب نہیں کرتے، ایس بی سی اے میں ہر ماہ اربوں روپے جمع ہوتے ہیں، سب رجسٹرار کے دفاتر میں پیسے بنائے جا تے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کی جانب سےڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پیش کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کمشنر کراچی کو فارغ کریں، انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں، ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں۔
عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا جنہوں نے گھر خریدے وہ اتنے معصوم نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاوضہ الگ معاملہ ہے، پہلے جگہ خالی ہونی چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا بلڈر کو بلا کر پوچھا جائے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا یہاں ایس بی سی سے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے۔ 50سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا کر لا کھڑا کردیا۔ دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کون چلا رہا ہے۔