ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا جگرکا آٹو ٹرانسپلانٹ کرلیا گیا۔
اس طریقہ علاج میں کینسر سے متاثرہ جگر کو جسم سے نکال کر کینسر کو علیحدہ کیا جاتا ہے اور تباہ ہوجانے والی شریانوں کو مصنوعی شریانوں سے تبدیل کر کے جگر کو واپس جسم میں لگا دیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے علاقے ژوب سے تعلق رکھنے والا 28 سالہ مریض صادق شاہ جگرکےکینسر میں مبتلا تھا، پروفیسر ڈاکٹر فیصل ڈار، ڈاکٹرجہانزیب اور ڈاکٹر محمد اقبال اور دیگر ماہرین کی زیر نگرانی مریض کا جگر نکال کر اسے کینسر سے سے صاف کر کے دوبارہ لگا دیا گیا، مریض اب مکمل طور پر روبہ صحت ہے۔ اس بات کا انکشاف ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نےکیا۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی کے مطابق آٹو ٹرانسپلانٹ میں مریض کا جگر باہر نکال کر اسے کینسر سے پاک کیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آٹو ٹرانسپلانٹ پاکستان کے نامور سرجن پروفیسر فیصل ڈار کی نگرانی میں کیا گیا، مریض کے جگر میں مصنوعی شریانیں ڈال کر جگر واپس لگا دیا گیا-
پروفیسر سعید قریشی نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں اس وقت صرف 20 آٹو ٹرانسپلانٹ ہوئے ہیں، یہ انتہائی حساس آپریشن ہے اور اس میں انتہائی احتیاط اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال انہوں نے ڈاؤ میں تین جگر کے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر پروفیسر فیصل ڈار کی نگرانی میں ڈاکٹرجہانزیب اور ڈاکٹر اقبال سمیت دیگر ماہرین نے ڈاؤ یونیورسٹی میں 28 ٹرانسپلانٹ کیےہیں، جن میں سے 6 ٹرانسپلانٹ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں کیے گئے ہیں، جب کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں اب ہر مہینے تین سے چار جگر کے ٹرانسپلانٹ کیے جائیں گے۔
اگلے چند ہفتوں میں مزید تین افراد کے لیے لیور ٹرانسپلانٹ کرنے جا رہے ہیں، پروفیسر سعید قریشی نے بتایا اور مزید کہا کہ اب پاکستانی مریضوں کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے دیگر شہروں میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
اس موقع پر جگر کے آٹو ٹرانسپلانٹ کے مریض صادق شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی بچنے کے امکانات کم تھے لیکن ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے ان کا علاج کیا اور اب وہ مکمل صحت یابی کے قریب ہیں۔