امت رپورٹ:
جہانگیر ترین کے پاور شو کو وزیر اعظم عمران خان کے بعض اہم مشیر بلیک میلنگ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ وفاقی کابینہ ارکان کی اکثریت بھی شوگر کنگ کے خلاف کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حق میں ہے۔ تاہم چند اہم وزرا جہانگیر ترین کے معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ جو اہم وزرا اس لڑائی کے مزید بڑھنے کو حکومت اور پی ٹی آئی کے لئے سنگین خطرہ سمجھ رہے ہیں، انہوں نے اپنے طور پر وزیر اعظم سے کہا ہے کہ جہانگیر ترین سے ملاقات کرکے معاملے کو ٹھنڈا کیا جائے۔ بصورت دیگر بجٹ سے پہلے یہ لڑائی حکومت کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اور اگر بات جہانگیر ترین اوران کے بیٹے کی گرفتاری تک پہنچ گئی تو پھر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی سے بجٹ کی منظوری یقیناً خطرے میں پڑجائے گی۔ کیونکہ جہانگیر ترین کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اتنی تعداد ہے، جس کے ذریعے وہ مرکز اور پنجاب دونوں جگہ بجٹ پاس ہونے سے روک سکتے ہیں۔ لہٰذا اس معاملے کو جون میں بجٹ سیشن سے پہلے جلد از جلد افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ ترین کے معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرانے کے خواہش مندوں میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر برائے معاشی امور خسرو بختیار پیش پیش ہیں۔ جبکہ ترین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھنے کے حامی وفاقی وزرا کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر خزانہ حماد اظہر، وزیر ترقیاتی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر مواصلات مراد سعید، وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور اور دیگر شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسی طرح وزرائے مملکت، معاونین خصو صی اور خصوصی مشیران کی اکثریت بھی ترین کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھنے کی حامی ہے۔ ان میں زرتاج گل، علی محمد خان، شہریار آفریدی، شہزاد اکبر، زلفی بخاری، عثمان ڈار اور دیگر شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول وزیر اعظم عمران خان تاحال مفاہمت یا ترین کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی روکنے کے حق میں نہیں۔ اور یہ کہ جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مقدمات سے لے کر تیس سے زائد اکائونٹس منجمد کئے جانے کی اب تک کی کارروائی وزیر اعظم کی تائید سے کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں موجود بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ہفتے کے روز جہانگیر ترین کی جانب سے اب تک کے سب سے موثر پاور شو کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو خطرے کی بو محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے اور انہوں نے کم از کم جہانگیر ترین کے شکوے شکایت سننے پر غور شروع کردیا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے تازہ بیان کو بھی حوالے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جس میں وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین کو اگر کوئی شکایت ہے تو وہ وزیر اعظم عمران خان سے بات کرسکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے، جس اندازہ ہو کہ وزیر اعظم عمران خان، جہانگیر ترین یا ان کے حامی ارکان سے ملاقات کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ ان ذرائع نے یہ تصدیق ضرور کی کہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان نے مشترکہ طور پر ایک درخواست وزیر اعظم کو بھیجی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھ ملاقات کرکے معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کریں۔ لیکن یہ کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
ادھر جہانگیر ترین اور ان کے حامیوں کی طرف سے حکومت کو ملے جلے پیغامات دیئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ہی جہانگیر ترین اپنے حامیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔ جمعہ کی رات جہانگیر ترین کے عشائیہ میں شرکت کرنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد انتیس کے قریب تھی۔ تاہم ہفتے کے روز جب وہ تین پیشیوں پر سیشن کورٹ لاہور اور بینکنگ کورٹ میں آئے تو ان کے حامی ارکان کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ اس موقع پر چالیس کے قریب ارکان اسمبلی ان کے ہمراہ تھے۔
بینکنگ عدالت نے جہانگیر ترین کی عبوری ضمانت میں سترہ اپریل اور سیشن کورٹ نے بائیس اپریل تک توسیع کردی۔ ترین کے حامی ایک سے زائد ارکان سے آف دی ریکارڈ بات کرکے معلوم ہوا کہ فی الحال شوگر کنگ ، وزیراعظم یا حکومت سے براہ راست سینگ پھنسانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
پاور شو کے ذریعے ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح حکومت پر دبائو ڈال کر اپنیخلاف کارروائی رکوادی جائے۔ تاہم وزیر اعظم سے اپنی وفاداری کا اظہار جاری رکھا جائے اور کسی طرح ان لوگوں کے خلاف ایکشن کا راستہ ہموار کیا جائے، جو ترین کے خیال میں اس سارے معاملے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ ترین کے عشائیہ میں شریک ایک رکن کے بقول جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف آئی بی کے سربراہ سلیمان، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کا ٹرائیکا سرگرم ہے۔ عشائیہ کے موقع پر اس کا اظہار جہانگیر ترین نے کھل کر کیا۔ جبکہ ان کے حامی ارکان نے اس کی تائید کی۔
رکن اسمبلی کے مطابق جہانگیر ترین کا خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی حمایت کے الزام سے لے کر دیگر پی ٹی آئی مخالف سرگرمیوں کی انفارمیشن سول انٹیلی جنس ایجنسی وزیر اعظم کو فراہم کرتی ہے، جس پر ایف آئی اے کے ذریعہ ایکشن پرنسپل سیکریٹری کراتے ہیں۔ تاہم اس سارے معاملے میں شہزاد اکبر کا رول محدود ہے۔ رکن کے مطابق جہانگیر ترین اپنی یہ شکایات وزیر اعظم تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف غلط اطلاعات پہنچائی جارہی ہیں۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ وزیر اعظم ملاقات کا ٹائم نہیں دے رہے اور واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے جو رابطے بحال ہوئے تھے، وہ بھی اب منقطع ہوچکے ہیں۔ تاہم ترین کے حامی ارکان اسمبلی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر جہانگیر ترین، وزیر اعظم سے ملاقات میںکامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو وہ کسی صورت اپنے ان مخالفین کے خلاف وزیر اعظم کو کارروائی پر آمادہ نہیں کرسکیں گے، جو ترین کے بقول غلط انفارمیشن کے ذریعے باہمی تعلقات خراب کرنے میں ملوث ہیں۔
اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنے ان قریبی لوگوں پر حد درجہ اعتماد کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ترین کے پاس اپنے الزامات کاکوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک جہانگیر ترین نے جتنے بھی پاور شو کئے ہیں، ان کا مقصد حکومت کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ دبائو کے ذریعے اپنے خلاف کارروائی رکوانا اور وزیر اعظم سے دوبارہ تعلقات بہتر بنانا ہے۔ تاہم اگر بات جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کی گرفتاری تک پہنچ جاتی ہے تو پھر ہی شوگر کنگ سنجیدگی سے حکومت مخالف قدم اٹھانے کا سوچ سکتے ہیں۔ فی الحال ان کی ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح ایک بار پھر وزیر اعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلادیا جائے۔