ودیا ساگر کمار:
برطانوی شہزادہ ہیری سے شادی کا خواب دیکھنے والی بھارتی خاتون وکیل ہائی کورٹ پہنچ گئی۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والی وکیل پلویندر کور نے اپنی آئینی پٹیشن میں دعویٰ کیا ہے کہ ان سے شہزادہ ہیری کی منگنی ہوچکی تھی اور شہزادہ ہیری ان سے منگنی کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے تھے۔ لیکن اب علم ہوا ہے کہ وہ ان کے ساتھ شادی نہیں کریں گے۔ اس لیے عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ہیری کیخلاف دھوکا دہی کا مقدمہ درج کروائے اور منگنی کرکے شادی نہ کرنے کی پاداش میں نہ صرف شہزادہ ہیری گرفتارکر کے بھارت لایا جائے۔ بلکہ ان کے والد پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس کو بھی ہتھکڑیاں لگائی جائیں۔
بھارتی صحافی دلبیر سنگھ واہلا نے بتایا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس انیل سنگھ ساگوان کویڈ -انیس کی وبا کی وجہ سے اس دلچسپ معاملے کی ورچوئل سماعت کرنا چاہتے تھے۔ تاہم عرضی گزاروکیل پلویندر کورکی جانب سے خصوصی اپیل پر اس معاملے کی براہ راست سماعت کی گئی تھی۔ اپنی پٹیشن کو بااثر بنانے کیلیے اس خاتون نے شہزادہ ہیری کے ساتھ مبینہ طور پر اپنی whatsapp پر ہونے والی گفتگو کے اسکرین شاٹس بھی پیش کئے تھے۔ لیکن عدالتی عملہ اور فاضل جج کی جانب سے ان اسکرین شاٹس اور موبائل فون کا باریک بینی سے کیے جانیوالے تجزیہ کے نتیجہ میں یہ اسکرین شاٹس بھی جعلی پائے گئے۔ اس پر کئے جانے والے سوالات کا پلویندر کور کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دلچسپ پٹیشن کو ذاتی حیثیت میں پنجاب، ہریانہ ہائی کورٹ کے جج کے روبرو درخواست گزار وکیل پلویندر کور کا موقف سننے کے بعد فاضل جج نے پلویندر کور کو مخاطب کرکے قرار دیا کہ پرنس ہیری کی طرف سے شادی کے وعدہ کا دعویٰ کرناکوئی حقیقت تو نہیں۔ البتہ آپ کی جانب سے جاگتی آنکھوں سپنا دیکھنے کے مترادف ہے۔
ہائیکورٹ کے جج نے اولین مکالمہ میں خاتون وکیل اور عرضی گزار پلویندر کور کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کے ساتھ صرف ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اس پٹیشن میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ ہم اس پر کوئی کارروائی کرسکیں۔ ملکہ ایلزبتھ کے پوتے اور برطانوی سابق شاہزادے ہیری جو اپنے ہی شاہی خاندان سے بعض خانگی امور پر سنگین اختلافات کی وجہ سے پہلے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور برطانیہ سے خود ساختہ جلا وطنی کا شکار ہیں انہوں نے شاید خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے آبائواجداد کی حکمرانی والے ملک بھارت کی ایک ہائی کورٹ میں ان پر وعدہ پورا نہ کرنے کا مقدمہ چلا کران کو ہتھکڑیاں لگانے اورگرفتارکرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ بات بالکل سچ ہے کہ بھارتی صوبے پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سکھ وکیل پلویندرکورنے بھارتی عدالت سے درخواست کی ہے کہ چوں کہ پرنس ہیری نے ان سے شادی کا وعدہ کرنے کے بعد اسے نہیں نبھایا اس لئے انہیں اور شادی کی راہ میں’’رخنہ ‘‘ڈالنے والے شاہزادے ہیری کے والد پرنس چارلس کو بھی گرفتار کرلیا جائے۔
خاتون وکیل پلویندر کور نے ہریانہ ہائی کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں برطانیہ کے پرنس چارلس اور ان کے بیٹے پرنس ہیری کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور برطانوی میٹرو پولیٹن پولیس کو بھی شاہی خاندان کے دونوں ارکان کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ خاتون وکیل پلویندرکورکا الزام تھا کہ پرنس ہیری نے ان سے شادی کرنے کا وعدہ تو کیا۔ لیکن اسے پورا نہیں کیا۔ لہٰذا پرنس ہیری کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کی جائے اور انہیں بھارت لایا جائے تاکہ ان کی شادی میں مزید تاخیر نہ ہو۔
خاتون وکیل کا دعویٰ تھا کہ کئی برس قبل جب سے شاہزادہ ہیری نے ان شادی کا وعدہ کیا اور آن لائن منگنی کی، تب سے انہوں نے خود کو شاہی خاندان کی رکن اور بہو سمجھنا شروع کردیا تھا۔ ہائی کورٹ کے منصف مسٹرجسٹس ساگوان نے جب عرضی گذار پلویندر کور سے دوران سماعت استفسار کیا کہ کیا وہ کبھی برطانیہ گئی ہیں؟ اورکیا کبھی ان کی ملاقات برطانوی پرنس ہیری سے ہوئی ہے؟ تو اس پر وکیل پلویندر کور نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہ تو وہ کبھی برطانیہ گئی ہیں اور نہ ہی ان کی ملاقات کبھی کہیں ہوئی ہے۔ لیکن دونوں کی بات چیت سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتی رہی ہے اور وہ پرنس ہیری کے والد پرنس چارلس کو بھی ایک پیغام میں باضابطہ یہ اطلاع دی چکی ہیں کہ ان کا بیٹا میرے ساتھ ’’انگیج‘‘ ہے۔
پلویندر کور نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر پرنس ہیری کے ساتھ اپنی سوشل میڈیا پر مبینہ بات چیت کے کچھ پرنٹس آئوٹ بھی پیش کیے۔ لیکن عدالت نے جب ان کو غور سے جانچا اور ماہر سے رائے لی تو انہیں غیر واضح پایا۔ ان میں بعض جملے حذف شدہ بھی پائے گئے اور کچھ جملے مٹائے گئے تھے۔ جس پر ہائی کورٹ کے فاضل جج نے اپنی ناراضی کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عرضی پر غور کرنے جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسے انتہائی خراب طریقے سے ڈرافٹ کیا گیا ہے۔ یہ آئینی پٹیشن قواعد اور دلائل دونوں ہی لحا ظ سے درست نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پرنس ہیری سے شادی کرنے کیلیے دن میں خواب دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
جسٹس سانگوان کا کہنا تھا کہ اس مبینہ بات چیت پر عدالت بھروسہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اس بات کا امکان بہر حال موجود ہے کہ کسی شخص نے فیس بک اور ٹوئٹر پر نقلی آئی ڈی بناکر بات کی ہو۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس انیل سنگھ ساگوان نے طنزیہ لہجہ میں کہاکہ پلویندر جی آپ کی اس پٹیشن سے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے چارے پرنس ہیری بھارتی پنجاب کے کسی گاؤں کے سائبر کیفے میں بیٹھے ہوں اوراپنے لیے خوبصورت دلہن تلاش کررہے ہوں۔