نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے دلائل دیے کہ گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں، میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں، سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دلائل دیے کہ ایف بی آر شہزاد اکبر اور جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ملکیت ہے، میرے دین اورعدالت پر حملہ ہو تو جذباتی جاتا ہوں، 12 مئی کے واقعہ پر تحقیقات ہوتی تو آج ذمہ دار دبئی میں نہ ہوتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا واحد دفاع ہے کہ اہلیہ کے اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کہتے تھے کہ اہلیہ کے اثاثوں کا انہیں سے پوچھیں، خود کو بری کرنا ہے تو صاف کہیں لندن جائیدادوں میں آپ کا پیسہ شامل نہیں، آپ کو بتانا ہو گا اکاوئنٹ سے ہونے والے اخراجات سے اپکا کوئی تعلق نہیں، ثابت کرنا ہو گا کہ رقم منتقل کرنے کے اکاؤئنٹ سے آپ کا تعلق نہیں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ مجھے پہلے ہی بری کر چکے ہیں، میں نے عدالت نہیں حکومت کے خلاف باتیں کیں ہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ حکومت کو کچھ کہنا ہے تو باہر جاکر کہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ معذرت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، ہماری ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ باہر کی باتیں نہ کریں لوگ غلط سمجھیں گے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ جذباتی ہوتے ہیں لیکن میں ابھی تک خاموش ہوں، جو پوچھا جائے کل سوچ کر اس کا جواب دیں۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟۔ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلیے جو رقم باہر بھیجی گئی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟۔
کیا جائیداد کی خریداری کیلیے جو اخراجات کیے گئے ان کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں؟۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔