سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرِثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ججز میں تلخ کلامی ،جسٹس مقبول باقر ناراض ہوکرکمرہ عدالت سے چلے گئے۔
دورانِ سماعت جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ میں 50 بارکہہ چکا ہوں کہ کیس جلد ختم کریں، ہم دوسری سائیڈ کو بھی وقت کم ہونے کا کہہ چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ سینئر کا احترام نہیں؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن کیلیے وقت مقررکریں یا دلائل پورے کرنے دیں، بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا۔
جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔حکومتی وکیل نے کہا کہ مناسب ہو گا کہ عدالت 10 منٹ کا وقفہ کرلے۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ 10 منٹ کے وقفے سے کیا ہوگا؟ اور وہ اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی، بینچ کے سربراہ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جسٹس مقبول باقراس بینچ کی محبوبہ ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس مقبول باقرکو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کہ روزے کی حالت میں ہم پانی تو نہیں پی سکتے لیکن تازہ ہوا لے سکتے ہیں، ہم تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں،
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کی۔وفاقی حکومت کے وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے، ایف بی آر کو ڈیڈ لائینز دینے کی وجہ بھی کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا، سرینا عیسی کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا، عدالت نے تو سرینا عیسی کے خلاف کوئی حکم جاری ہی نہیں کیا تھا، سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے، کیس ایف بی آر کو بھجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسی کو سنا گیا تھا، سماعت کی ضرورت کسی کیخلاف فیصلہ دینے کیلئے ہوتی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے، حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے، حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔ وفاقی حکومت نے کوئی نظرثانی درخواست دائرنہیں کی۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سرینا عیسیٰ نے سماعت نہ ہونے کے حوالے سے قانونی حوالے نہیں دیے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ میرے دلائل پر اعتراض کیا جارہاہے ،ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لیے جائیں ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ دلائل پر اعتراض نہیں ہمیں آپ کی معاونت چاہیے ،عامر رحمان نے کہا کہ جسٹس فائز نے میرے کنڈیکٹ پر بات کی ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات غیر مناسب تھی ، جسٹس منظور اے ملک نے کہا کہ عامر رحمان صاحب آپ اچھے انسان ہیں بات ختم کریں ۔
وکیل وفاقی حکومت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فرض کیا گیا ایف بی آر کارروائی نہیں کرتا ، سپریم کورٹ آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے ،ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت ہو تی ۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلاتی حکم میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات استعمال کیے گئے ۔عامر رحمان نے کہا کہ ایف بی آر نے اگراگر غلطی کی ہے تو اس کی بنا پر نظرثانی نہیں ہو سکتی ۔ سریناعیسیٰ نے عدالت میں کہا کہ میر بیان یکارڈ کا حصہ نہیں ،میرے بیان کی ویڈیو ہے تو عدالت میں چلائیں ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے بیان کا متن عدالتی حکمنامے کا حصہ ہے ،سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میرے بیان کا متن کس نے اور کیسے تحریر کیا ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سپریم کورٹ کی متعلقہ برانچ نے بیان کامتن لکھا، آپ کو کاپی بھی دی ۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی ،جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ، کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے ۔دوران سماعت جسٹس منیب اختر اور مقبول باقر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عامر رحمان صاحب دلائل مختصر رکھیں ، دوسرے فریق کو بھی وقت کی قلت کا کہتے رہے ہیں ، عامر رحمان صاحب آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتاہوں ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ پورا عدالتی فیصلہ پڑھنے کی بجائے متعلقہ لائن پڑھیں ۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے ، عدالت کے وقار کا بھی خیال رکھنا ہو گا ،نظر ثانی کا دائرہ محدود ہو تاہے ، کیا کوئی جج پنا فیصلہ تبدیل کر سکتا ہے ، نظر ثانی میں فیصلہ یکسر تبدیل نہیں ہوتا ۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ تبدیل کرنے اور نظر ثانی میں فرق ہوتاہے ، جسٹس سجاد نے ریماکس دیئے کہ عامر رحمان کیلئے وقت مقرر کر یں یا دلائل پورے کرنے دیں ، بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاﺅں گا ، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔ حکومتی وکیل نے تجویزدی کہ مناسب ہو گا کہ عدالت دس منٹ کا وقفہ لے کر آئے ، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ دس منٹ کے وقفے سے کیا ہو گا ۔سپریم کورٹ نے ججزکے درمیان تلخ کلامی پر دس منٹ کا وفقہ کیا ۔
سرکاری وکیل عامر رحمان نے کہاکہ 187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کروں گا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل کے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے انہیں روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ قاضیٰ صاحب آپ مہربانی فرما کر بیٹھ جائیں ، آپ بار بار کارروائی میں مداخلت نہ کریں ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس لینا کافی بہتر ہوتا ہے ، روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں ۔ عامر رحمان نے کہا کہ جسٹس مقبول کو اگر میری کوئی بات بری لگی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں ، جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ مجھے آپ کی کوئی بات بری نہیں لگی ، جسٹس عمر عطا بندیال نے خوشگوار ماحول میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں۔
سرکاری وکیل عامر رحمان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہا جارہاہے کہ سرینا عیسیٰ کا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا جا سکتا ، سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں ، جج کرپشن کیس ملزمان کو سنے بغیر تحقیقات کیلئے بھیجا گیا تھا ، سرینا عیسیٰ کا موقف تو عدالت نے ویڈیو لنک پر سنا تھا ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے کیلئے کتنا وقت درکار ہو گا، کوشش کریں گے کل ڈیڑھ گھنٹہ کیس کی سماعت کریں ،ججزکچھ وضاحت چاہتے ہیں تو سوال بھی کریں گے ،سب کو کوشش کرنی چاہیے ہم جذباتی نہ ہوں ،سپریم کورٹ کیلئے یہ حساس ترین کیس ہے ،حکومتی وکیل نے کہا کہ حامد خان نے جو نکات اٹھائے ان کا جواب دوں گا ،کوشش کروں گا کل اپنے دلائل مکمل کر لوں ۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔