محمد قاسم:
افغان طالبان کی جانب سے استنبول کانفرنس میں شرکت سے انکار کے بعد کانفرنس کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مشاورت مکمل نہ ہونے پر کانفرنس ملتوی کرنے کی اپیل کی گئی۔
طالبان کی جانب سے نظام حکومت کے نکات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں خواتین کے تمام حقوق محفوظ ہوں۔ انہیں وراثت کا حق حاصل ہو۔ عورت کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا جائے گا۔ عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ عورت کو شرعی پردے کے ساتھ تعلیم، صحت، تجارت اور دیگر محکموں میں ملازمت کا موقع دیا جائے گا۔ انصاف کی فراہمی، حقوق کا دفاع، ہر قسم کی آزادی کو برقرار رکھنے کے علاوہ میڈیا کو بھی آزادی دی جائے گی۔ تاہم یہ آزادی افغان اقدار، بین الاقوامی اور اسلامی قوانین کے مطابق ہوگی۔
بیان کے مطابق طالبان کا قیام بدعنوانی، ظلم اور ناانصافی کے خاتمے اور ملک میں مرکزی اسلامی حکومت کے قیام کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ وطن عزیز پر امریکی جارحیت کے بعد طالبان کی جدوجہد کے دو اہم اہداف ہیں۔ جن میں افغانستان کی آزادی اور اسلامی نظام کا نفاذ شامل ہے۔
کابل حکومت اور جارحیت کے حامی کچھ میڈیا اور تجزیہ کار بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ طالبان کس طرح کا اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر عوام میں اضطراب پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلامی نظام کو ایک نامعلوم اور ناقابل عمل نظام کی حیثیت سے دکھانا چاہتے ہیں۔ اسلامی نظام ظاہری اور عملی لحاظ سے کوئی مبہم نظام نہیں۔ قرآن مجید، احادیث اور فقہ میں اسلامی نظام کی تعریف اور اصول بیان و مرتب کیے گئے ہیں اور عملی طور پر اسلامی نظام نے سینکڑوں برس تک حکمرانی کی۔ اسلامی نظام امن و آشتی کا لاتا ہے اور جہاں جہاں اسلام نظام رائج رہا وہاں کافر بھی امن سکون سے رہے۔ جبکہ اسلامی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب اسلامی دنیا اپنے بعض لوگوں کی غداری کی وجہ سے اسلامی نظام کے نفاذ سے محروم ہے۔ سیکولرازم اور کمیونزم کے ظالمانہ نظام کا شکار ہے۔
طالبان ملک میں ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جہاں قاتل سے قصاص لیا جائے۔ ڈاکو کو سزا دی جائے۔ زانی پر حد جاری کی جائے۔ ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکا جائے۔ مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلائی جائے۔ رشوت لینے والے کو سزا دی جائے۔ غاصبوں سے بیت المال اور مظلوم شہریوں کے حقوق واپس لئے جائیں۔ جس میں خواتین کے تمام حقوق محفوظ ہوں۔ وراثت میں انہیں حق حاصل ہو۔ دشمنی میں انہیں نہ دیا جائے۔ شادی اور شوہر کے انتخاب کا حق انہیں حاصل ہو۔ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگائے جائیں۔ عورت کو شرعی حجاب میں تعلیمی، صحت، تجارتی اور معاشرتی معاملات میں معاشرے کی خدمت کرنی چاہیے۔ طالبان ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ملکی سالمیت کا تحفظ ہو۔ وطن عزیز غیر ملکی فوجوں، اجنبی نظریات اور مغربی قانون سے پاک ہو۔ ایسا نظام ہو جو ہماری مذہبی اقدار، قومی مفادات، ثقافت و روایات کا تحفظ کرے۔ جو لوگوں کے معاشرتی اور انفرادی حقوق اور حیثیت کا تحفظ کرے۔ لوگوں کی جان، مال، عزت اور وقار کو کوئی بری نظر سے نہ دیکھ سکے اور زندگی کے سارے معاملات شریعت کے مطابق ہوں۔
طالبان ایسا نظام برداشت نہیں کرسکتے جس میں قوم کا قاتل مارشل، چور جج اور غاصب سینیٹر ہو۔ ہم ایسا نظام نہیں چاہتے جس میں صدر فخر کے ساتھ اپنا بنیادی کام نیو یارک اور واشنگٹن کی حفاظت کرنا سمجھے اور اسی لیے وہ افغان بچوں اور خواتین کو مار ڈالے۔ مساجد، مدراس، اسکول اور اسپتالوں پر حملے کرے اور قابض افواج کے جرنیلوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور تمغوں سے نوازے۔ ہم ایسا نظام نہیں چاہتے جہاں ایوان صدر میں انتظامی اور اخلاقی کرپشن عروج پر ہو اور اس طرح کی شرمناک اور گھناؤنی حرکتوں کا حکام کی برطرفی اور تنصیب میں فیصلہ کن کردار ہو۔ ہم ایسی جمہوریت نہیں چاہتے جہاں قابض ممالک کے سول اور فوجی حکام صدر مملکت کی آگاہی کے بغیر آتے ہیں۔ صدر کو اپنے کیمپ طلب کرتے ہیں اور پھر فوجیوں کی لائن میں ایک سپاہی کی طرح کھڑا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جو مرد و خواتین، جوان اور بوڑھے، مسلمان اور کافر کے حقوق کا تحفظ کرے۔ جو امن و انصاف فراہم کرے۔ اپنے حقوق کا دفاع کرے۔ آزادی کو برقرار رکھے۔ ہر حملہ آور اور باغی کو عبرتناک شکست دے اور اپنے دین، ملک، عوام، عزت، مفادات اور وقار کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ ہمارے روحانی اور مادی مفادات کسی بھی دوسرے نظام کی نسبت اسلامی حکومت میں زیادہ محفوظ ہیں۔ کیونکہ اسلامی نظام ہمارا وہ قدر مشترک ہے۔ جس میں تمام اقوام اور طبقات اپنے حقوق و مفادات محفوظ دیکھتے ہیں اور صرف اسلامی نظام ہی خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم افغانستان کی ضمانت دے سکتا ہے۔
افغان طالبان کے ذرائع نے بتایا کہ رہبر شوریٰ نے نظام کے حوالے سے ان امور کی منظوری دی ہے۔ جبکہ ترکی کانفرنس کے حوالے سے ہم نے ترک حکام کو بتایا ہے کہ ہماری مشاورت پر وقت لگے گا۔ لہذا وہ اس کانفرنس کو ملتوی کر دے کہ طالبان اپنی مشاورت مکمل کرلیں۔