ندیم محمود:
تحریک لبیک کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور سینئر رہنما ڈاکٹر محمد شفیق امینی نے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں ایسے بہت سے سوالات کا جواب دیا ہے، جو عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ اہم انٹرویو سوال و جواب کی صورت میں نذر قارئین ہے۔
س: کیا حکومت نے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے کے ساتھ حافظ سعد حسین رضوی سمیت تمام گرفتار شدگان کی رہائی کا وعدہ بھی کیا تھا؟
ج: بالکل، وزیر داخلہ شیخ رشید نے دیگر مذاکرات کاروں کی موجودگی میں یہ اعلان کیا تھا کہ تمام اسیران کے خلاف مقدمات خارج کر دیے جائیں گے اور انہیں رہا کیا جائے گا۔ اس کا ثبوت منظر عام پر آنے والا وہ ویڈیو کلپ ہے، جس میں وزیر داخلہ یہ اعلان کر رہے ہیں اور دونوں جانب کے مذاکرات کار بھی ساتھ بیٹھے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے اہم اور بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا ایک شخص غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہا ہے کہ جن کے خلاف مقدمات ہیں، انہیں اپنے مقدمات بھگتنے پڑیں گے۔ لہٰذا ایک بار پھر حکومت اپنے وعدوں سے مکر گئی ہے۔ حکومت کو معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بند کمرے کے اجلاس میں مذاکرات کاروں کے سامنے آپ کوئی بات کریں اور میڈیا میں آکر کچھ اور بولیں۔
س: اس سے پہلے حکومت کے ساتھ دو تحریری معاہدے کیے گئے تھے۔ کیا تازہ مذاکرات میں بھی کوئی تحریری معاہدہ کیا گیا؟
ج: نہیں، اس بار کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ تیسرے معاہدے کی ضرورت نہیں تھی۔کیونکہ پچھلے معاہدے کی تکمیل کا معاملہ تھا۔ یعنی حکومت نے اپنے پرانے معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کرنا تھا۔ اس کے لئے طے کیا گیا تھا کہ باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ جس میں دونوں فریق بیٹھیں گے۔ حکومتی نمائندے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے اور اسیران کی رہائی سمیت دیگر طے پا جانے والے معاملات کا اعلان کریں گے۔ لیکن مذاکرات کے بعد معاہدہ چونکہ سحری کے وقت پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بلکہ سحری ختم ہونے میں بہت تھوڑا ٹائم باقی بچا تھا۔ لہٰذا پریس کانفرنس یا میڈیا کو فوری بلانا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ اس اعلان کی ایک ویڈیو بنالیتے ہیں۔ اس ویڈیو کو میڈیا کے لئے جاری کر دیا جائے۔ بعد ازاں ایسا ہی ہوا۔ منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔ تمام اسیران کے مقدمات خارج کرکے انہیں رہا کیا جائے گا۔ جبکہ شیڈول فور میں شامل نئے اور پرانے نام نکال دیئے جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ صرف ایم پی او کے تحت حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کیا جائے گا اور جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں، انہیں مقدمات بھگتنے ہوں گے۔ جیسا کہ وہ اب کہہ رہے ہیں اور انہوں نے پریس کانفرنس میں بھی یہ سفید جھوٹ بولا۔ یہ سراسر معاہدے سے انحراف ہے۔
س: مذاکرات کے اختتام پر شوریٰ ارکان اور حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں وزیر داخلہ نے جو مکمل اعلان کیا تھا، اس کی تفصیلات سے آگاہ کر دیں، کیونکہ ویڈیو کلپ بہت مختصر ہے۔
ج: وزیر داخلہ شیخ رشید نے دونوں فریقوں کے مذاکرات کاروں کی موجودگی میں اعلان کیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد، جو فریقین کے اتفاق رائے سے تیار کی گئی تھی، دوسرے روز اسمبلی میں پیش کردی جائے گی ۔ جبکہ میں بطور وزیر داخلہ آپ کے اسیران کے مقدمات کے خاتمہ کا نوٹیفکیشن جاری کروں گا۔ چونکہ یہ تمام مقدمات سیاسی اور انتقامی بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے۔ لہٰذا انہیں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے خارج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعد میں وزیر داخلہ نے جو پریس کانفرنس کی، اس میں سراسر غلط بیانی کرتے ہوئے ایک نئی کہانی بیان کردی کہ صرف ایم پی او کے تحت زیر حراست لوگوں کی رہائی ہوگی اور یہ کہ جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں، انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجھے افسوس سے بتانا پڑے گا کہ جب بند کمرے میں مذاکرات ہورہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ معافیاں مانگتے ہیں کہ جو کچھ ہوگیا اس پر ہمیں معاف کر دیں۔ تاہم میڈیا کے سامنے یہ لوگ کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال قوم اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہی ہیکہ کس طرح کے حکمران ان پر مسلط ہوگئے ہیں۔
س : ایسے میں یہ بہتر نہیں ہوتا کہ حکومت کی جانب سے تمام وعدوں پر عمل کرنے کے بعد احتجاج ختم کرنے کی شرط رکھی جاتی؟
ج : ہمارا بنیادی مطالبہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے کے حوالے سے تھا۔ ہم نے شرط رکھی تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پیش ہوتے ہی دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔ حکومت نے اس پر عمل کیا تو ہم نے مرکزی دھرنا ختم کر دیا۔ اس سے قوم کے سامنے یہ واضح ہوگیا کہ ہمارے احتجاج کا مقصد اسیران کو رہائی دلانا نہیں، بلکہ ناموس رسالتؐ جیسے عظیم معاملے پر اسٹینڈ لینا تھا۔ یہ درست ہے کہ ہم ساتھ میں یہ شرط بھی رکھ سکتے تھے کہ جب تک ہمارے امیر حافظ سعد رضوی اور دیگر تمام اسیران کو وعدے کے مطابق ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے رہا نہیں کردیا جاتا، مرکزی دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اصل مقصد فرانسیسی سفیر کے خلاف قرارداد پیش کرانا تھا۔ باقی باتیں ضمنی تھیں۔ میں اب بھی واضح کردوں کہ لوگ اپنے امیر حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لئے باہر نہیں نکلے تھے۔ بلکہ ناموس رسالتؐ سے متعلق حکومت کی جانب سے کئے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج کر رہے تھے۔ تحریری معاہدے میں صاف لکھا ہے کہ جو فریق بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔ جب اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت نے بیس اپریل کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہمارے امیر کو گرفتار کرلیا، تو اس طرح یکطرفہ طور پر معاہدے کو توڑ دیا گیا۔جس پر عوام احتجاج کے لئے سڑکوں پر آگئے۔
س: اگر حکومت ایک بار پھر وعدہ خلافی کرتے ہوئے حافظ سعد حسین رضوی سمیت دیگر اسیران کو رہا نہیں کرتی تو ٹی ایل پی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
ج: اس پر شوریٰ ارکان کے مابین مشاورت ہو رہی ہے۔ لیکن بہرحال ہم ابھی انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت اپنے معاہدے اور وعدہ پر عمل کرلے۔ اور اس قوم کو مزید بدامنی، انتشار اور دلدل کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ ہم مختلف لوگوں سے بھی رابطہ کرکے انہیں حکومت کی اس وعدہ خلافی سے آگاہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ کل کو پھر حکومت واویلا کرے گی کہ ٹی ایل پی والے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ دہشت گردی کرتے ہیں۔ لہٰذا اب آپ خود دیکھیں کہ خود حکومت ہمیں احتجاج اور سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ جب حکومت کے وعدوں اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ وہ رات کو کوئی بات کرے اور دن میں کوئی اور بات کرے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم اپنے خطاب میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق کچھ اور کہہ رہے تھے اور پانچ گھنٹے بعد حکومت اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے پر رضامند ہوجاتی ہے۔ یعنی اہم معاملات کو آپ نے ایک بھونڈا مذاق بنایا ہوا ہے۔ خود حکومت کے وزرا حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ میرے خیال میں پاکستانی تاریخ میں اتنے نااہل حکمراں کبھی نہیں آئے۔ حکومت نے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاملے کو آخر کار پارلیمنٹ میں لے جانا تھا تو پھر اتنی لاشیں کیوں گرائیں۔ ہزاروں کارکنوں کو زخمی کیا۔ ملک میں انتشار پیدا کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ حکمرانوں کے چہرے مزید بے نقاب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ، حضور پاکؐ کے غلاموں کو مزید استقامت اور کامیابی دے گا۔
س: یعنی آپ ایسے بااختیار لوگوں تک اپنا پیغام پہنچارہے ہیں کہ حکومتی اقدامات کا نوٹس لیں، جنہوں نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں تعاون کیا؟
ج: میں ایسے لوگوں سے مسلسل رابطوں کی کوشش کر رہا ہوں اور بعض سے میرے رابطے ہوئے بھی ہیں۔ اور انہیں میں نے کہا ہے کہ حکومت ایک بار پھر وعدہ خلافیوں پر اتر آئی ہے۔ مذاکرات میں ہمارے ساتھ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی بیٹھے تھے۔ وہ خود حکمرانوں کے کرتوتوں پر پریشان ہیں کہ یہ آخر کیا کر رہے ہیں۔ گورنر پنجاب کے سامنے یہ طے ہوا تھا کہ تحریک لبیک کے پندرہ سو کارکنوں کو فوری رہا کردیا جائے گا۔ لیکن یہ پراسس آج بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ ایم پی او کے تحت زیر حراست جن سات سو سینتیس افراد کی رہائی کا ذکر وزیر داخلہ نے کیا ہے، ان میں سے بھی متعدد کو باہر نکلتے ہی پولیس دوبارہ گرفتار کر رہی ہے۔ معاہدے کی بنیادی شق پر عمل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی دی ہے۔ ہم صرف اس وجہ سے اب حکومت کے مزید اقدامات کا انتظار کر رہے ہیں کہ چلو اسیران کی رہائی سے متعلق وعدے پر عمل آج نہیں تو کل ہوجائے گا۔ فی الحال ہم فریاد کر سکتے ہیں۔ قوم کے سامنے حکمرانوں کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ تاہم جب ہم مجبور ہوجائیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ کسی طرف سے بھی شنوائی نہیں ہورہی تو پھر کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے لئے تیار بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کب تک ہم ظلم سہتے رہیں گے۔ اس حوالے سے ہماری شوریٰ کا جو بھی فیصلہ ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس پر عمل کیا جائے گا۔
س: بریلوی مکتبہ فکر کے جس نو رکنی وفد نے جیل جاکر حافظ سعد حسین رضوی سے ملاقات کی، مذاکرات اور معاہدہ کرانے میں اس وفد کا کتنا رول ہے؟
ج: نو رکنی وفد کا ہمارے مذاکرات، معاہدے یا معاملات سے ایک فیصد بھی تعلق نہیں ہے۔ اس وفد کا جیل جاکر حافظ سعد حسین رضوی سے ملنے کا مقصد کسی قسم کی ثالثی یا مذاکرات کرنا نہیں، بلکہ حکومت کی ایما پر امیر محترم کو سرنڈر کرانا تھا۔ وفد کے ارکان چاہتے تھے کہ ٹی ایل پی نے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق جو موقف اپنا رکھا ہے۔ حافظ سعد حسین رضوی اس مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں اور احتجاج ختم کرانے کی کال دے دیں۔ تاہم وفد کے ارکان کی یہ کوشش ناکام رہی۔ حافظ سعد حسین رضوی نے انہیں دو ٹوک کہا کہ یہ کام میری شوریٰ کا ہے۔ آپ جاکر شوریٰ سے بات کریں۔ میں شوریٰ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور نہ کروں گا۔ اس پر وفد نے پیشکش کی کہ ہم آپ کی رہائی کرا دیتے ہیں اور اس رہائی کے عوض آپ باہر جاکر احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیں۔ تاہم سعد حسین رضوی نے کہا کہ انہیں ڈیل کے عوض رہائی کی ضرورت نہیں۔ اس ناکامی کے بعد سرکاری وفد جیل سے نکلا تو پھر ہمیں نہیں معلوم کہ کہاں گیا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں میرے ساتھ شوریٰ کے دیگر تین ارکان بھی تھے۔ ان مذاکرات میں نو رکنی وفد کا کوئی رکن شامل نہیں تھا۔ ہم نے اپنے طور پر حکومت سے مذاکرات کئے۔
س: وفد کو لیڈ کرنے والے صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے امیر نے خود کہا تھا کہ وہ اپنے مقدمات کا خاتمہ اور رہائی عدالت کے ذریعے کرالیں گے؟
ج: دراصل حافظ سعد حسین رضوی کی باتوں کو توڑ مروڑ کر میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ امیر محترم نے نو رکنی وفد کو ڈیل کے عوض رہائی کی پیشکش ٹھکرادی تھی۔ اور انہیںکہا تھا کہ وہ کسی ڈیل کے ذریعے باہر نہیں آئیں گے، بلکہ عدالت کے ذریعے مقدمات لڑ کر رہا ہونے کو ترجیح دیں گے۔ یہ نہیں کہا تھا کہ اگر شوریٰ فیصلہ کرے کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کی قرارداد پیش کرنے کے ساتھ سعد حسین رضوی اور دیگر اسیران کو بھی حکومت رہا کرے تو اس کے باوجود وہ اپنی رہائی کے لئے عدالتی کارروائی کو ترجیح دیں گے۔ بدقسمتی سے سعد حسین رضوی کے موقف کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔
س: وفد کے بعض ارکان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ سعد حسین رضوی نے شرط رکھی تھی کہ شوریٰ ارکان سے ان کی ملاقات کرائی جائے اور وفد یہ گارنٹی لے کر دے کہ ملاقات کرنے کے لئے جیل آنے والے شوریٰ ارکان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہ گارنٹی دینے پر شوریٰ ارکان کی سعد حسین رضوی سے ملاقات کرادی گئی تھی؟
ج: یہ بھی سفید جھوٹ ہے ۔ مجھ سمیت شوریٰ کے کسی رکن کی اب تک سعد حسین رضوی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ نہ ہم نے ایسی کوئی شرط رکھی تھی۔ ہمارا موقف تو یہ تھا کہ ایک شخص جو حکومت کی کسٹڈی میں ہے۔ اور شاید آپ تشدد یا کسی اور دبائو کے ذریعے اسے سرنڈر کرانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا کسی اور کے ذریعے پہنچنے والے امیر محترم کے کسی حکم کو درست تصور نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ حافظ سعد حسین رضوی کے حکم پر ہی شوریٰ کو مذاکرات اور اہم فیصلوں کا اختیار دیا گیا ہے۔ لہٰذا مذاکرات میں سعد حسین رضوی کی شرکت ضروری نہیں۔ انہیں اپنی مقرر کردہ مذاکراتی ٹیم پر پورا اعتماد ہے۔ ہم نے پہلے بھی معاہدے کئے ہیں۔
س: کیا حافظ سعد حسین رضوی کے گھر والوں کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں ہے؟
ج: گرفتاری سے لے کر اب تک حافظ سعد حسین رضوی کی صرف ایک ملاقات اپنے چھوٹے بھائی انس حسین رضوی اور ایک ملاقات اپنے تایا جان سے ہوئی ہے۔ ان دونوں سے امیر محترم نے یہی کہا تھا کہ شوریٰ کو ہر طرح کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ اور شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے گی۔ مجھے منظور ہوگا۔ اور یہ کہ شوریٰ ارکان میری رہائی کے بجائے اپنا تمام فوکس فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے کے بنیادی مطالبے پر رکھیں۔
س: جیل سے جاری سعد حسین رضوی سے منسوب خطوط کے بارے میں بھی بتائیں، کہا جارہا ہے کہ یہ خطوط اصلی تھے؟
ج : پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ ہمیں ان خطوط کے اصلی ہونے کا یقین نہیں۔ فرض کریں کہ اگر حافظ سعد حسین رضوی سے منسوب یہ خطوط درست بھی تھے، جس میں احتجاج ختم کرکے مطالبات سے دستبردار ہونے کا کہا گیا تھا تو ہم نے حکومت کو پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اس نوعیت کے خطوط کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر آپ واقعی امیر محترم سے اس قسم کا اعلان کرانا چاہتے ہیں تو انہیں جیل سے باہر لے آئیں اور وہ خود آکر شوریٰ کے سامنے یہ اعلان کردیں۔ بصورت دیگر مشکوک خطوط کے ذریعے آنے والی کسی ہدایت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ جب بندہ زیر حراست ہو۔ اور پتہ نہیں اسے باہر کے حوالے سے کیا صورتحال بتائی جارہی ہو۔ یا شاید پھر ظلم اور تشدد کے ذریعے مجبور کیا جارہا ہو۔ جس طرح حکومت نے ہمارے کراچی کے امیر رضی حسینی پر تشدد کرکے ایک بیان ریکارڈ کرالیا۔ لہٰذا ہمارا حکومت سے کہنا تھا کہ جب ایک شوریٰ موجود ہے اور امیر محترم کی موجودگی میں بھی تمام فیصلے شوریٰ کرتی ہے تو پھر حافظ سعد حسین رضوی سے منسوب خط منظر عام پر لانے کے کیا مقاصد ہیں۔
س: حکومت سے حتمی مذاکرات کے اختتام پر آپ نے مرکزی دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حافظ سعد حسین رضوی کے استقبال کی تیاری کریں۔ کیا آپ کو پورا یقین تھا کہ حکومت تحریک لبیک کے امیر کو رہا کرنے جارہی ہے؟
ج: جی پورا یقین تھا۔ کیونکہ حکومت کے مذاکرات کاروں نے وعدہ کیا تھا کہ اسی شام عصر تک یا دوسرے روز حافظ سعد حسین رضوی کو رہا کردیا جائے گا۔ چونکہ حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لئے محض ایک ایگزیکٹو آرڈر کی ضرورت ہے۔ یہ آرڈر ایک ڈی سی بھی جاری کرسکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے حکومتی وعدے پر اعتبار کرلیا کہ ایک تو ایک عام سا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا حکومت کے لئے مشکل نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ تمام حکومتی ذمہ داران ایک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ آج یا کل تک سعد حسین رضوی کو رہا کردیا جائے گا تو ہمارے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
س: ناموس رسالتؐ کے معاملے پر دیگر مکتبہ فکر کے علما اور رہنمائوں نے بھی تحریک لبیک کی بھرپور حمایت اور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ان میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن شامل ہیں۔ تاہم حکومت اس حمایت کو ایک سیاسی حربہ قرار دے رہی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
ج: یہ ہمارے کارکنوں کی بے مثال قربانیاں ہیں کہ ہمارے نظریاتی مخالفین بھی ہمارے گن گارہے ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ ناموس رسالتؐ کے پروانے ہیں اور سچے عاشق رسولؐ ہیں۔ لہٰذا دیگر مکتبہ فکر کے جن رہنمائوں اور لوگوں نے ہماری حمایت اور ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا، ہم اس پر ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں اور ان کے جذبے کی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے یقینا حق کی بنیاد پر ہمارے لئے بات کی۔ بلکہ ناموس رسالتؐ جیسے مقدس مشن کے لئے آواز اٹھائی۔ جب حکومت تحریک لبیک کے اس مشن کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے پوری قوم کے سامنے معاملے کا غلط رخ پیش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسے میں دیگر مسالک کے ان رہنمائوں، تاجروں، وکلا، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حق کے لئے آواز بلند کی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ ناموس رسالتؐ کے لیے یہ قوم ایک ہے۔ چاہے کسی کے چہرے پر داڑھی ہو یا نہ ہو۔ ساری نمازیں پڑھتا ہو یا نہیں۔ لیکن رسول پاکؐ کی ناموس کے لئے جان دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ بعض سیاسی و دینی جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے ہماری کھل کر حمایت کرنے کو حکومت سیاسی عزائم سے تعبیر کر رہی ہے۔ تو یہ سراسر غلط بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن ہوں یا سراج الحق ہوں۔ ان کی حمایت کے پیچھے سیاسی مقاصد نہیں، بلکہ نیک نیتی تھی۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے پر جو بھی تحریک لبیک کی حمایت کر رہا ہے، اسے وہ برا لگ رہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ احتجاج کے دوران کچھ ایسے لوگ بھی جنہوں نے توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی، ان کا تعلق بعض دوسری پارٹیوں سے تھا۔ ان کی ویڈیوز ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ لوگ ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اوراس کا فائدہ اٹھایا بھی ہے۔