سپریم کورٹ میں دس رکنی فل بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت کی جس دوران عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سرینا عیسیٰ کا کیس ایف بی آر کو بھجوانے کی وجہ تنازع کا حل تھا ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیایہ لکھناضروری ہے کہ فیصلہ 187 کے تحت دیاجارہاہے ۔
عامر رحمان نے کہا کہ عدالت کااختیار ہو تو فیصلے میں آرٹیکل کا ذکر ضروری نہیں ہوتا۔ د لائل کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مداخلت کی تو جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب !عامررحمان شریف آدمی ہے،اسے بولنے دیں،تحمل کا مظاہرہ کریں اوروکیل کو دلائل دینے دیں،جسٹس قاضی ا مین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہم سب کھلے دل اور ذہن کیساتھ بیٹھے ہوئے ہیں،عامر رحمان نے کہاکہ درخواست گزار بڑا آدمی ہے ،اس لیے مداخلت کی جارہی ہے،بار بار مداخلت سے میرے لیے دلائل دینا مشکل ہورہا ہے،جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ بہترین دلائل دے رہے ہیں ،جاری رکھیں۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے کہاکہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں،مجھے باربار رگڑا لگایا جا رہا ہے،جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ قاضی صاحب مہربانی کریں ،وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مستقل باڈی ہے ،یہ کہنا درست نہیں کہ ریفرنس پر ہی جوڈیشل کونسل تشکیل پاتی ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کا ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا ،ایف بی آر کو کیس عدالت نے حکومتی درخواست پر نہیں بھجوایا تھا ،حکومت کا کیس کالعدم ہو چکا تو حکومتی وکیل کو سننا کیوں ضروری ہے ،جن کا کیس ایف بی آر گیا انکا حق ہے وہ چیلنج کرتے ،وکیل نے کہا کہ پاناما کیس میں بھی عدالت نے مخصوص مدت میں تحقیقات کا حکم دیا تھا ، اداروں کو مخصوص مدت میں اقدامات کی ہدایت سپریم کورٹ کرتی رہی ہے ۔