کراچی کے حلقہ این اے 249 میں ضمنی الیکشن سے قبل ہونے والے 3 سرویز میں سے پلس اور اِپسوس کے سروے میں تحریک انصاف کو سب سے آگے بتایا گیا تھا جبکہ گیلپ کے سروے میں مسلم لیگ ن سب سے آگے تھی۔
تینوں سرویز میں پیپلزپارٹی کافی نیچے تھی لیکن نتیجہ سامنے آیا تو یہ تینوں سروے ناکام رہے۔ تحریک انصاف کی بری کارکردگی اور پیپلز پارٹی اور ٹی ایل پی کی نسبتاً بہتر کارکردگی کی پیش گوئی کرنے میں یہ سروے ناکام رہے۔
پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں پی ٹی آئی کو 19 فیصد کے ساتھ پہلے اور پی ایس پی کو 17 فیصد حمایت کے ساتھ دوسرے نمبر پر بتایا گیا مگر نتائج دونوں جماعتوں کے لیے برے نکلے۔ پلس عوام کی پلس پر ہاتھ کیوں نہ رکھ سکی؟ پلس کے سی ای او کاشف حفیظ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف تنظیمی ناکامی کے باعث اپنے ووٹروں کو باہر نہ لاسکی۔
گیلپ سروے نے مسلم لیگ ن کی فتح کی پیش گوئی کی مگر گیلپ سروے میں مسلم لیگ ن کے 19 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے 10 فیصد اور ٹی ایل پی کے پانچ فیصد ووٹ نظر آئے جبکہ حقیقت میں پی پی اور لبیک نے بہت بہتر پرفارم کیا۔ گیلپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی کہتے ہیں کہ سروے الیکشن سے 10 دن پہلے کیا گیا تھا۔
ایم ڈی اپسوس (IPSOS) بابر عبدالستار نےانتہائی کم ووٹر ٹرن آوٹ کو سروے کے برعکس نتائج کی بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ 60 فیصد متوقع ووٹرز گھرمیں بیٹھے رہے جس نے تمام نمبرز کو الٹ کردیا، ن لیگ اور پی ایس پی کے بارے میں ان کی پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی، آخری کے دس دنوں میں ہونیوالی تبدیلیاں ووٹر رجحان پر اثر انداز ہوئیں جس سے صورتحال پلٹ گئی۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ووٹ میں کمی کا پیپلزپارٹی کو فائدہ ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن سے متعلق ایسے سرویز کو آئندہ تنقیدی نظر سے دیکھا جائے گا۔