عارف انجم:
قسط نمبر 23
نبی کریم ﷺ کی تلواروں میں سے ایک اور اہم تلوار ’’الماثور‘‘ ہے۔ جسے ’’ماثور الفجر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ان دو تلواروں میں شامل ہے۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وراثت میں ملی تھیں۔ روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم نے یہ تلوار آپ ﷺ کے نام وصیت کی تھی۔ نبی کریم ﷺ کے پاس یہ تلوار بعث نبوت سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ جب آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو یہ تلوار آپ کے ساتھ رہی۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تلوار مع دیگر چند آلات حرب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دی تھی۔
توپ کاپی میوزیم میں محفوظ تلواروں کی کچھ تصاویر محمد حسن محمد التہامی (Tihami Al) نے لگ بھگ نصف صدی قبل یا اس سے بھی پہلے بنائی تھیں۔ حسن التہامی ’’سیوف الرسول وعدۃ حربہ‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے عنوان سے ایک مقالہ لکھ رہے تھے۔ جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ التہامی کے مطابق جب انہوں نے تصاویر بنائیں تو ’’الماثور‘‘ کے دستے کے قریب خط کوفی میں تحریر تھا: ’’عبداللہ بن عبدالمطلب‘‘۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی کتاب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ تلوار کے پھل پر ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں جو مدھم ہو چکے ہیں۔
التہامی کی کتاب ’’سیوف الرسول وعدۃ حربہ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامان حرب پر مستند ترین کتب میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب 1992ء میں شائع ہوئی۔ لیکن تصاویر لینے اور تحقیق کا کام بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ کچھ ذرائع کے مطابق تصاویر 1929 عیسوی میں بنائی گئی تھیں۔ التہامی لکھتے ہیں کہ یہ تلوار ایام نوجوانی سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ ہجرت کے دوران بھی آپ ﷺ کے پاس رہی اور اس کے بعد اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہی۔ جب تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتقل نہیں ہوگئی۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا اسلحہ اور جانور حضرت علیؓ اور اہل بیت کو منتقل ہوئے تھے۔
التہامی کے بقول اس تلوار کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی پہلی تلوار تھی۔ یہ زمانہ اسلام سے ہونے والی جنگ فجار میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ قریش اور دوسرے قبائل کے درمیان حرب فجار نام کی چار جنگیں ہوئی ہیں۔ آخری جنگ کے وقت نبی کریم ﷺ کی عمر 20 برس تھی۔ حسن التہامی نے جس حرب فجار کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 14 برس تھی۔
حسن التہامی کہتے ہیں، تاریخ کی کتابوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ تلوار مبارک (الماثور) نبی کریم ﷺ نے غزوات کے دوران کسی صحابی کو لڑنے کے لیے نہیں دی۔ جیسا کہ بدر، احد، خندق اور دیگر غزوات میں بعض دیگر آلات حرب کے معاملے میں ہوا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی تلواروں پر تحقیق کے لیے حسن التہامی نے توپ کاپی میوزیم کا دورہ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تلواروں کے دستے اور نیامیں سونے سے بنانے کا حکم سلطان احمد اول (دور حکمرانی 1590 سے 1617 عیسوی) نے دیا تھا۔ سلطان کے حکم پر الماثور کی میان سونے سے بنائی گئی اور اس پر جواہرات جڑے گئے۔ اور پھر یہ مخملی کپڑے میں لپیٹ کر خالص چاندی سے بنے ایک اسٹینڈ پر رکھی گئی۔
حسن التہامی نے اپنی کتاب میں اس تلوار مبارک کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس تلوار کا پھل (بلیڈ) دو دھاری ہے اور نوک گھونپنے کے لیے تیز ہے۔ دستے کے قریب پھل اور دستے کو الگ کرنے والا ایک حفاظتی ٹکڑا ہے۔ اس کے ساتھ سانپ کی شکل بنی ہوئی ہے۔ ایسی علامتیں عام طور پر قبل از اسلام میں استعمال ہوتی تھیں۔ جس کا مطلب ہوتا تھا کہ یہ تلوار انتہائی ہلاکت خیز ہے۔ اس کے (دستے کے عین) نیچے خط کوفی میں تحریر ہے ’’عبداللہ بن عبدالمطلب‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دستہ اور نیام لکڑی سے بنے ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ جب انہیں نقصان پہنچا تو 16 ویں صدی عیسوی میں یہ دوبارہ بنائے گئے۔ تاہم تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تلوار کا پھل (بلیڈ) نبی کریم ﷺ کے زمانے کا ہی ہے۔
’’سیوف الرسول وعدۃ حربہ‘‘ میں تلوار مبارک الماثور کے فضائل بیان کرتے ہوئے حسن التہامی نے یہ بھی لکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کی تقریب میں نبی کریم ﷺ نے یہ تلوار کمر سے باندھ کر شرکت کی تھی کہ بنو ہاشم کا یہی رواج تھا۔ دیگر بنو ہاشم بھی تقریب میں اسی انداز میں شریک ہوئے۔ حلمی ایدین کا بھی کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی کمر سے تلوار باندھا کرتے تھے۔
التہامی کہتے ہیں کہ عثمانی دور میں جہاں تلوار مبارک کو چھونا اعزاز تھا۔ وہیں اسے نیام سے باہر نکالنا اس سے بھی بڑا شرف سمجھا جاتا تھا۔ جب بھی مسلمان افواج کسی جنگ کے لیے روانہ ہوتیں۔ عثمانی خلفا اس تلوار مبارک کو ایک انچ نیام سے باہر نکال کر مناجات کرتے تھے کہ مسلم فوج اور مسلمانوں کی فتح ہو۔
اس تلوار مبارک کو التہامی نے نبی کریم ﷺ کی تلواروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ انہوں نے اس کی پیمائش کے حوالے سے یہ تفصیلات فراہم کی ہیں۔ نیام سمیت مکمل لمبائی 99 سینٹی میٹر۔ قبضہ (دستہ) 14 سینٹی میٹر۔ پھل (بلیڈ) کی لمبائی 81 سینٹی میٹر۔ دستے کی چوڑائی 4 سینٹی میٹر۔ نوک 3 اعشاریہ 5 سینٹی میٹر ہے۔
الماثور کے علاوہ جو تلوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ورثے میں ملی۔ وہ ’’الرسوب‘‘ ہے۔ یہ پشت در پشت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان میں منتقل ہوتی آ رہی تھی۔ اس تلوار مبارک کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے اور یہ بھی استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار ’’الماثور‘‘ کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے حکام اسے ’’سیف النبوی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس تلوار کے دستے پر یاقوت اور فیروزے جڑے ہیں۔ دستہ اور میان دونوں ہی بعد کے ادوار میں بنائے گئے۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں سمیت توپ کاپی میوزیم میں موجود 21 مقدس تلواروں کے دستے اور نیامیں ترک سلاطین نے بنوائی تھیں۔ الماثور کے دستے کو پھل (بلیڈ) سے جدا کرنے والے حفاظتی دھاتی ٹکڑے کو دو مڑے ہوئے سانپوں کی شکل دی گئی ہے۔
نیام کی لمبائی 85 سینٹی میٹر ہے اور یہ خالص سونے سے تیار کی گئی ہے۔ میان کی ایک جانب اسی طرح یاقوت اور فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔ جس طرح دستے پر ہیں۔ جبکہ دوسری سائیڈ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ البتہ قیمتی پتھر نہیں لگائے گئے۔ میان کے ساتھ ایک چاندی کا بکل بھی لگا ہے۔
بیشتر مسلمانوں کے لیے میان اور دستے سے زیادہ دلچسپی کا حامل اس تلوار کا پھل ہے۔ جو نبی کریم ﷺ کی اصل نشانی ہے۔ اس پھل پر ایک جگہ ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں جو مدھم پڑ چکے ہیں۔ تلوار کا پھل بالکل سیدھا ہے اور ان کی نوک تیز ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل نبی کریم ﷺ کے آلات حرب پر تحقیقی اسکالر حسن التہامی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ تلوار کے پھل پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم ’’عبداللہ بن عبدالمطلب‘‘ کا نام بھی کندہ ہے۔
الماثور کو صرف اس کی قیمتی نیام میں ہی محفوظ نہیں کیا گیا۔ بلکہ میان میں ڈالنے کے بعد یہ تلوار مبارک ایک کپڑے کے سبز بیگ میں رکھی جاتی ہے۔ مذکورہ تھیلے پر عربی میں تحریر ہے: ’’یہ حضرت رسول الکریم علیہ السلام کی تلوار ہے‘‘۔