عارف انجم:
قسط نمبر 25
پاکستانی افواج نے جون 2014ء میں جب شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا تو اس آپریشن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار’’عضب‘‘ پر’’ضرب عضب‘‘ رکھا گیا۔ نبی کریم ﷺ کی تلوار عضب غزوہ احد میں کافروں پر غلبے کا سبب بنی تھی۔ جنگ کے دوران حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تلوارحضرت ابو دجانہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی تھی۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دوران نبی کریم ﷺ نے یہ تلوار نکال کر پوچھا کہ یہ مجھ سے کون لے گا۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا کہ ’’میں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ کون اس سے ایسے لڑے گا کہ اس کا حق ادا ہو۔ اس مرتبہ صرف ابو دجانہ الانصاریؓ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔ انہوں نے تلوار لے لی اور کئی کفار کا کام تمام کر دیا۔
الطبرانی کا حوالہ دیتے ہوئے عرب اسکالر حسن التہامی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کون اس سے ایسے لڑے گا کہ اس کا حق ادا ہو۔ تو ابو دجانہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استفسار کیا، یا رسول اللہ اس کا حق کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دشمن پر اس وقت تک چلے جب تک یہ ٹیڑھی نہ ہو جائے۔
روایت کے مطابق ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر تلوار لی اور لال پٹی سر پر باندھ کر اکڑتے ہوئے دشمن کی صف میں جا گھسے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی چال دیکھ کر فرمایا: ’’یہ ایسی چال ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ مگر اس مقام پر نہیں‘‘۔ روایت کے مطابق ابو دجانہؓ اس وقت تک لڑتے رہے۔ جب تک اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح نہیں عطا کر دی۔
غزوہ احد میں ہی نبی کریم ﷺ نے اپنی دوسری تلوار الذوالفقار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی تھی۔ جس سے انہوں نے مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑے سرداروں کو ہلاک کیا۔
’’عضب‘‘ مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ الذوالفقار سمیت نبی کریم ﷺ کی باقی 8 تلواریں استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہیں۔
عضب جنگ میں استعمال کے لیے تھی۔ تاہم نبی کریم ﷺ ذاتی حفاظت کے لیے ایک اور تلوار بھی اپنے پاس رکھتے تھے۔ ذاتی حفاظت کے لیے تقریباً ہر وقت نبی کریم ﷺ کے پاس رہنے والی اس تلوار کا نام ’’القضیب‘‘ ہے۔ یہ تلوار بہت پتلی ہے۔ یعنی اس کے بلیڈ کی چوڑائی بہت کم ہے۔ یہ تلوار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ دفاع یا رفیقِ سفر کے طور پر تو ضرور موجود رہی۔ مگر اس سے کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار کے پھل (بلیڈ) پر چاندی کے ساتھ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے اسلحہ پر کتاب ’’سیوف الرسول وعدۃ حربہ‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلواریں اور سامانِ حرب) تحریر کرنے والے حسن التہامی اور دیگر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ نبی پاک ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے تک ’’القضیب‘‘ کے کسی جنگ میں استعمال کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔
اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے۔ دیگر مبارک تلواروں کی طرح القضیب کا دستہ اور میان بھی بعد میں بنائے گئے۔ بلیڈ کی لمبائی 86 سینٹی میٹر ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جس کی نوک نکلی ہوئی ہے۔ دستہ 14 سینٹی میٹر کا ہے۔ دستے کی چوڑائی 2 اعشاریہ 8 سینٹی میٹر ہے۔
پہلے ذکر آچکا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی 9 تلواروں میں سے 2 انہیں ورثے میں ملی تھیں۔ جن کے نام الماثور اور الرسوب ہیں۔ غزوہ احد کے لیے مشہور تلوار عضب آپ ﷺ کو سعد بن عبادہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحفے میں دی تھی۔ الذوالفقار نبی کریم ﷺ کو غزوہ بدر کے دوران مال غنیمت میں ملی تھی۔
اسی طرح تین تلواریں غزوہ بنو قینقاع کے بعد نبی کریم ﷺ کی تحویل میں آئیں۔ ان میں سے ایک البتار تھی۔ جس کا پہلے ذکر آچکا ہے۔ دیگر دو تلواروں کے نام علما کی اکثریت کی رائے میں حتف اور قلعی ہیں۔ تاہم ایک روایت کے مطابق بنو قینقاع سے حاصل ہونے والی تیسری تلوار القضیب تھی۔
البتار حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار تھی۔ جو نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچی۔ اسی طرح حتف بھی حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار ہے۔ جو خود حضرت داؤد علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوہے کے ساز و سامان بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس اپنے باپ دادا کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل چلی آ رہی تھی۔ حتیٰ کہ آخر میں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں میں مالِ غنیمت کے طور پر آ پہنچی۔
بنو قینقاع سے ملنے والی تیسری تلوار قلعی کے بارے میں بیشتر روایات یہی ہیں کہ یہ میثاق مدینہ توڑنے والے یہود کے خلاف چڑھائی کے بعد مال غنیمت میں حاصل ہوئی۔ تاہم ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اس تلوار اور سونے کے بنے ہوئے دو ہرنوں کو زمزم کے کنویں سے نکلوایا تھا۔ جو کہ قبیلہ جرہم الحمیریہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام کا سسرالی قبیلہ) نے یہاں پر ایک زمانہ قبل دفن کئے تھے۔ بعد میں حضرت عبد المطلب نے اس تلوار کو بمعہ دیگر قیمتی سامان (سونا) بیت اللہ میں حفاظت سے رکھوا دیا۔ تلوار پر دستہ کے قریب یہ الفاظ کندہ ہیں: ھذِہ السّیف المشرفیی لبیت محمد رسول اللہ (یہ تلوار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کی عزت کی علامت ہے)۔
القضیب کے بارے میں 16 ویں صدی کے حنفی اسکالر محمد ابن یوسف شامی اپنی کتاب جو ’’السیرۃ الشامی‘‘ کے نام سے مشہور ہے، میں لکھتے ہیں کہ ’یہ تلوار بنو قنیقاع سے مال غنیمت میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچی‘۔ محمد ابن یوسف شامی کی اس بات کو حسن التہامی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی تمام تلواروں میں سے اس تلوار کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ بالخصوص سفر کے دوران ہمہ وقت آقائے دو جہاں ﷺ کے ساتھ رہتی تھی۔ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب دوران سفر نبی کریم ﷺ آرام کرنے کے لیے لیٹتے تو تلوار کو جسم سے الگ کرتے۔
استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں موجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تلوار مبارک کا نام ’’القضیب‘‘ ہے۔ اس کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور نبی کریم ﷺ کی تلواروں میں سے یہ سب سے پتلی ہے۔ آقائے دو جہاں ﷺ اس تلوار کو سفر کے دوران اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس سے کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔
تلوار کے بلیڈ پر چاندی کے ساتھ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔ تلوار مبارک کا دستہ سیاہ چمڑے کا بنا ہے۔ جس کے آخری سرے پر گولائی سونے سے بنائی گئی ہے۔ جس پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہیں۔ اسی طرح دستے اور پھل کے درمیان موجود حفاظتی پٹی بھی سونے سے بنائی گئی ہے۔ اور اس پر خوبصورت نقش و نگار موجود ہیں۔ یہ دونوں چیزیں عثمانی سلاطین کے دور میں تلوار پر لگائی گئیں۔ اسی طرح نیام بھی بعد میں بنی ہے۔ نیام رنگ شدہ چمڑے سے بنائی گئی ہے۔
تلوار مبارک کا کل وزن 930 گرام ہے۔ نیام سمیت اس کا وزن 1684 گرام بن جاتا ہے۔ نیام پر بھی خوبصورت نقش و نگار اور دو بکل موجود ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے جس کی باریک نوک ہے۔