وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ، سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے ، آئی ایم ایف پروگرام بہت مشکل ہے ، آئی ایم ایف نے بہت سخت شرائط رکھیں جن کی سیاسی قیمت بھی ہے ۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم معاشی طور پر استحکام کی طرف جا رہے تھے کہ کورونا آگیا ، مارچ میں ریونیو گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھا،کوشش توبہت کی دوستوں سے رقم لی مگر پھر بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، حکومت نے سخت شرائط کے باوجود آئی ایم ایف کی شرائط کو فالو کیا اور استحکام کی طرف گئے ،ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے ، کوویڈ کے دوران بھی آئی ایم ایف نے ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا پیکیج دیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ میرا اور وزیراعظم کا فلسفہ معیشت کو بہتر کرنا ہے ،حکومت نے کووڈ کے دوران بھی 1200ارب روپے کا پیکیج دیا،70کی دہائی میں ہم معیشت کیلئے منصوبہ بندی کرتے تھے ،ہم نے معیشت کیلیے پلاننگ چھوڑ دی تھی،اس وقت ہماری معیشت دنیا کی اچھی معیشتوں میں شمار ہوتی تھی ،ہم نے معیشت کیلیے پلاننگ چھوڑ دی تھی ، اب ہم دوبارہ معیشت پر پلاننگ کر رہے ہیں ،بارہ گروپس تشکیل دیے جو پلاننگ سے کام کریں گے ، شارٹ ، میڈیم اورلانگ ٹرم کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کو چیلنجز درپیش ہیں ہمیں اپنا ریونیو بڑھانا ہوگا،مہنگائی نیچے نہیں آرہی ،ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کی وجہ کیاہے ، زراعت میں کسان سے چیزلے کرعام آدمی کو بیچنے کے دوران 50سے 60فیصد منافع مڈل مین کھا رہا ہے ، ہمیں زراعت کے میدان میں پیسے خرچ کرنا ہوں گے ۔
شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آرنے اچھا کام کیا ، ہراسگی کے واقعات بھی سامنے آئے ، ہم ٹیکس نیٹ میں شامل افراد کی ہراسانی کا معاملہ ختم کریں گے ۔