لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں شہباز شریف کی بلیک لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر میں سنائے جانے کا امکان ہے ۔
لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست پر سماعت کی ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ عید پاکستان میں کرنا چاہیں گے ،شہباز شریف نے کہا میں کینسر کا مریض ہوں ، مجھے سال میں دو بار چیک اپ کرانا پڑتا ہے ، علاج کا معاملہ نہ ہوتا تو عید پاکستان میں کرنے کو ترجیح دیتا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف واپسی کی کسی قسم کے ضمانت دے سکتے ہیں ، شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف پہلے ہی تینوں کیسز میں ضمانتی مچلکے دے چکے ہیں ، جب بھی ضمانت ملتی ہے تو پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جاتا ہے مگر شہباز شریف کے معاملے میں عدالت نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔
جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ مجھے ایک موقع پر ایسا حکم دینے کا خیال آیا مگر پھر دیکھا کہ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں ، اس لئے ایسا نہیں کیا ۔شہباز شریف نے کہا کہ میں اس قوم کا بیٹا ہوں ، ہمیشہ ملک و قوم کی خدمت کی ۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی نجفی نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا تھا۔
دورانِ سماعت لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ شہباز شریف خود کہاں ہیں؟ انہوں نے ریٹرن ٹکٹ کیوں نہیں لی؟
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ شہباز شریف لاہور میں موجود ہیں، کورونا وائرس کی وجہ سے ریٹرن ٹکٹ فوری ملنا ممکن نہیں۔
شہبازشریف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شہبازشریف برطانیہ کے ڈاکٹر سے چیک اپ کیلئے وقت لے چکے ہیں اور ان کی کل فلائٹ بھی ہے ، حکومت نے نیا طریقہ نکالا ہے اور شہبازشریف کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیاہے ۔ وکیل امجد پرویز نے عدالت میں بتایا کہ شہبازشریف کی 20 مئی کو ڈاکٹر مارٹین کے ساتھ اپوائنٹمنٹ بک ہے اور ان کی برطانیہ کیلیے کل کی فلائٹ بک کی گئی ہے ۔
دالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ شہبازشریف کانام بلیک لسٹ میں شامل ہے ؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست محض مفروضے کی بنیاد پر ہے ، ہدایات لیے بغیر عدالت کی معاونت نہیں کر سکتا ، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کیلیے آدھے گھنٹے کا وقت دیدیا ہے ۔
آدھے گھنٹے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی جس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہدایات نہیں لے سکا کیونکہ لوگ چھٹی کر کے جا چکے ہیں ،کیس چھٹیوں کے بعد رکھ لیں ۔شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں بتایا کہ برطانیہ جانے سے پہلے قطر میں دس دن رہنا ہے ،کل شہبازشریف نے قطر جانا ہے ، 17 مئی کو دوحہ سے برطانیہ جانا ہے ، جسٹس باقر علی نجفی نے ریمارکس دیئے کہ اس میں واپسی کا ٹکٹ نہیں ہے ۔عدالت نے سماعت دو بجے تک ملتوی کرتے ہوئے شہبازشریف کو طلب کیا ۔
وقفے کے بعد شہبازشریف عدالت میں پیش ہوئے جس دوران جسٹس باقرعلی نجفی نے استفسار کیا کہ کیا آپ پاکستان میں عید کرنا چاہتے ہیں جس پر شہبازشریف نے جواب دیا کہ علاج کا معاملہ نہ ہو تو پاکستان میں عید کرنے کو ترجیح دیتا ۔عدالت نے شہبازشریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔
شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ آمد پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔میاں شہباز شریف کی طرف سے عدالتِ عالیہ سے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی گئی تھی۔