عارف انجم:
قسط نمبر 30
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے خلیفہ راشد ہیں۔ جن کے لیے ان کی حیات مبارکہ کے دور میں ہی امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔ پہلے خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود کو امیرالمومنین نہیں کہلوایا۔
شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر فریڈ ڈونر اور دیگر مغربی ماہرین کے مطابق اس لقب کو اپنانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلامی سلطنت پھیل رہی تھی اور ایک خاص فوجی تناظر موجود تھا۔ لفظ ’’امیرالمومنین‘‘ سے اسی فوجی پس منظر کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’امیر‘‘ کا مطلب ہے کمانڈر۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار خود کو سب سے پہلے مومنین (ماننے والے) سمجھتے تھے (اور اس کے بعد قبائلی شناخت آتی تھی)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے احوال پر مشہور کتاب ’’اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ‘‘ کے مطابق حضرت سیدتنا شفائؓ جو پہلے ہجرت کرنے والوں میںسے ہیں۔ روایت کرتی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر عراق کو لکھا کہ میرے پاس دو تندرست و دانا آدمی بھیجو، جو مجھے وہاں کے حالات سے آگاہ کریں۔ تو عراق کے گورنر نے حضرت لبید بن ربیعہ عامری اور حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھیجا۔ وہ مدینہ منورہ میں آئے اور اپنی سواریوں کو بٹھا کر مسجد میں داخل ہوئے۔ جہاں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ انہوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے کہا ’’آپ امیر المومنین سے ہمارے حاضر ہونے کی اجازت طلب کریں‘‘۔ یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص نے کہا کہ ’’خدا کی قسم ! تم نے ان کا صحیح نام تجویز کیا ہے۔ ہم مومنین ہیں اور وہ ہمارے امیر ہیں‘‘۔
حضرت عمرؓ اس سے پہلے اپنے مکتوبات میں ’’خلیفۂ خلیفۂ رسول‘‘ لکھتے تھے۔ اسد الغابہ میں ہی ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو خلیفۂ رسولِ خدا کہا جاتا تھا۔ جب کہ مجھے یہ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ میں تو ابو بکر صدیقؓ کا خلیفہ ہوں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ ہمارے امیر ہیںاور ہم مومنین، تو آپ ہوئے ’’امیر المومنین‘‘۔ یہ سن کر آپؓ نے ارشاد فرمایا ’’یہ درست ہے‘‘۔
فریڈ ڈونر اور دیگر مورخین کے مطابق عربی لفظ ’’خلیفہ‘‘ کو مسلمانوں کے قائد کے لیے استعمال کرنے کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور میں ہوا۔ اس سے سے قبل ’’خلیفہ‘‘ کے عام عربی معنے لیے جاتے تھے۔ خلیفہ کا مطلب ہے جانشین۔ یعنی یہ لفظ لقب کے طور پر استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ اسد الغابہ میں موجود روایات سے بھی اس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے۔ لہذا امیرالمومنین وہ پہلا لقب ہے۔ جو مسلمانوں کے قائد کے لیے استعمال کیا گیا۔
حضرت عمر فاروقؓ کی بہادری کے کئی واقعات مشہور ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور آپؓ کے قبول اسلام سے متعلق ہے۔ جس کی تفصیل سیرت رسول اللہ ﷺ پر اولین کتاب ’’سیرت ابن اسحاق‘‘ میں بھی موجود ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے قبول اسلام کے بعد مکہ میں مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے تھے۔ وہ تلوار جو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تھی۔ اب اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں اٹھنے لگی۔
حضرت عمرؓ وہ واحد صحابی ہیں۔ جنہوں نے مکہ سے اعلانیہ طور پر مدینہ ہجرت کی۔ دیگر صحابہؓ کفار کے شر سے بچنے کے لیے خاموشی سے مدینہ روانہ ہوتے رہے۔ حضرت عمرؓ نے پہلو میں تلوار لٹکائی۔ کندھے پر کمان دھری۔ تیر ہاتھ میں لئے۔ نیزہ سنبھالا اور خانہ کعبہ گئے۔ صحن حرم میں قریش کی مجلس جمی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کی۔ پھر قریش جہاں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں آئے اور کہا ’’دشمن مغلوب ہوں۔ میں (ہجرت کرکے) مدینہ جا رہا ہوں۔ جو چاہتا ہے اس کی ماں بین کرے۔ اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی رفیقہ حیات بیوہ ہو۔ وہ مجھے اس وادی کے پار روک کر دیکھ لے‘‘۔ امام السیوطی نے اپنی کتاب ’’تاریخ خلفا‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی تلوار سے خوف کا ایک اور واقعہ قبیلہ ہوازن سے متعلق ہے۔ جسے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی تلواروں پر تحقیق کرنے والے حسن التہامی نے بھی اپنی کتاب ’’سیوف الرسول ﷺ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ شعبان 7 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے ایک دستہ قبیلہ ہوازن کی طرف روانہ کیا۔ یہ قبیلہ مکہ سے چار رات کے فاصلے پرصنعاء نجران کی شاہراہ پر آباد تھا۔ مسلمان دستے میں 30 افراد تھے۔ اور ایک رہبر جو بنو بلال سے تھا، آپ کے ساتھ گیا۔ یہ لوگ رات کو چلتے۔ دن کو چھپ جاتے۔ جب قبیلہ بنو ہوازن کو پتہ چلا۔ وہ بھاگ گئے۔ عمر فاروقؓ ان کے ٹھکانوں کی طرف گئے۔ لیکن وہاں پر نہ مل سکے۔ اس طرح یہ لوگ واپس مدینہ لوٹ گئے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ایک قصہ بہت مشہور ہے۔ اگرچہ اسے ضعیف حدیث قرار دیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے پاس ایک منافق اور ایک یہودی اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے حاضر ہوئے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ سنانے سے پہلے یہودی نے بتایا کہ ہم دونوں یہ معاملہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھی لے جا چکے ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا فیصلہ میرے حق میں کر چکے ہیں۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار سے اس منافق کی گردن اتار دی اور فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہ ہو۔ اس کے لیے عمر کا یہی فیصلہ ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ کی بہادری اور تلوار چلانے کی مہارت اس فہم و فراست کے علاوہ ہے۔ جو انہوں نے روم اور فارس کی سلطنتوں کے خلاف دکھائی۔ اور جس کی بدولت اسلامی سلطنت کے علاقے میں وسیع اضافہ ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سیاسی فہم کا تقاضا تھا کہ آپؓ کسی بھی شخصیت کو زیادہ عرصے کے لیے گورنر نہیں رہنے دیتے تھے کہ طوالت اقتدار خرابی کا سبب نہ بنے۔
1۔ توپ کاپی میوزیم میں موجود سیدنا عمر فاروقؓ کی دو دھاری تلوار- 100 سینٹی میٹر طویل اور 1164 گرام وزنی تلوار مبارک کے پھل پر ’’محمد رسول اللہ- عمر ابن خطاب‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں- جو اب مدھم پڑ چکے- تلوار کے دستے پر چڑھائے گئے چمڑے پر مچھلی کا نشان بنا ہوا ہے۔
2۔ حضرت عمر بن خطابؓ کی ایک اور تلوار بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے- جس کی لمبائی 107 سینٹی میٹر اور وزن 1176 گرام ہے- تلوار کے دستے پر سبز رنگ کا مخملی کپڑا ہے- تلوار مبارک کی خاص بات اس کے پھل (بلیڈ) پر بنی ہوئی جھریاں ہیں- اس کی نوک انتہائی تیز ہے۔
ڈیپ کیپشن
عثمانی سلطنت کے دوران جہاں ایک روایت یہ تھی کہ فوج کی محاذ پر روانگی سے قبل ترک سلاطین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر فتح کے لیے مناجات کرتے تھے۔ وہیں ایک اور روایت یہ بھی تھی کہ ہر نیا سلطان حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار مبارک کو اپنی کمر سے باندھنا اعزاز سمجھتا تھا۔ حضرت عمرؓ کی ایک سے زائد تلواریں توپ کاپی میوزیم میں موجود ہیں۔
دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروقؓ کی توپ کاپی میوزیم میں موجود ایک تلوار 100 سینٹی میٹر طویل ہے۔ اس کا وزن 1164 گرام ہے۔ تلوار کے پھل (بلیڈ) پر ’’محمد رسول اللہ- عمر ابن خطاب‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔ جو اب مدھم پڑ چکے ہیں۔ یہ تلوار دو دھاری ہے۔ حسن التہامی کے مطابق تلوار کا اگلا سرا نوک دار نہیں بلکہ مڑا ہوا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تلوار کو گھونپنے کے بجائے ضرب لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
تلوار کے دستے پر چمڑا چڑھایا گیا ہے، جس پر ایک مچھلی کا نشان بنا ہوا ہے۔ مچھلی کو مشرق وسطیٰ کی تہذیبوں میں خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہ دستہ ترک سلاطین نے بنوایا۔ جس کے آخری سرے کی گولائی سونے سے تیار کی گئی ہے۔ تلوار کی میان 95 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ جس کے آخری سرے اور دونوں بکلوں کو سونے سے بنایا گیا ہے۔
توپ کاپی میوزیم میں ہی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ کی ایک اور تلوار بھی موجود ہے۔ جس کی لمبائی 107 سینٹی میٹر اور وزن 1176 گرام ہے۔ اس تلوار مبارک کے دستے پر سبز رنگ کا مخملی کپڑا ہے۔ دستے کے آخری سرے کی گولائی سونے سے بنی ہے۔ جب کہ دستے اور تلوار کے بلیڈ کے درمیان حفاظتی آہنی ٹکڑے پر بھی سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔
اس تلوار کی خاص بات اس کے پھل (بلیڈ) پر بنی ہوئی جھریاں ہیں۔ اس کی نوک انتہائی تیز ہے۔ تلوار مبارک کی نیام 95 سینٹی میٹر ہے۔ جس پر مخملی کپڑا ہے اور اوپر سونے سے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ نیام کا اپنا وزن 820 گرام ہے۔