عارف انجم:
قسط نمبر: 31
رجب 9 ہجری بمطابق 630 عیسوی میں جب مسلمانوں کو غزوہ تبوک کا مرحلہ درپیش ہوا تو انہیں کئی طرح کی مشکلات درپیش تھیں۔ گرم موسم کی شدت، طویل سفر اور پھر فوج کی تعداد کے اعتبار سے سازوسامان کی عدم دستیابی۔ مسلمانوں کو اطلاع ملی تھی کہ رومیوں کا 40 ہزار کا لشکر آرہا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے 30 ہزار کا لشکر تیار کیا گیا۔ اتنی بڑی جمعیت کو مسلح کرنے اور اس کے سفر کے لیے انتظام کے لیے خاصے وسائل درکار تھے جو مشکل حالات میں آسان نہیں تھے۔ اسی بنا پر غزوہ تبوک کو غزوہ العسرہ اور اس جنگ کے لیے جانے والی فوج کو جیش العسرہ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ نے جیش العسرہ کے ایک تہائی حصے یعنی لگ بھگ 10 ہزار فوجیوں کے لیے سواری، آلات حرب اور دیگر سامان کا انتظام کیا تھا۔ سنن ترمذی میں ہے (حدیث نمبر3700 ) عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ جیش عسرہ کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے ’’اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔‘‘ آپ ﷺ نے پھر اس کی ترغیب دلائی تو عثمانؓ پھر کھڑے ہوئے اور بولے ’’اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔‘‘ آپ ﷺ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے ’’اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ ﷺ نے منبر سے اترتے ہوئے دو مرتبہ کہا ’’اس کے بعد عثمانؓ کو کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
اسی غزوہ تبوک کے سلسلہ میں ازالۃ الخفاء میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے سالم بن عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ تبوک کے سفر میں جتنی بھوک پیاس اور سواری کی تکلیف درپیش آئی اتنی کسی دوسرے غزوے میں نہیں آئی۔ دورانِ سفر ایک مرتبہ سامانِ خور و نوش ختم ہو گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے مناسب سامان اونٹوں پر لاد کر حضور پاک ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اونٹوں کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ ان کی وجہ سے دْور سے تاریکی نظر آرہی تھی جس کودیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لوگو! تمہارے واسطے بہتری آگئی ہے‘‘۔ اونٹ بٹھائے گئے اور جو کچھ ان پر سامان لدا ہوا تھا‘ اْتارا گیا۔ حضور پاک ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ’’میں عثمان سے راضی ہوں۔ اے اللہ تو بھی عثمان سے راضی ہوجا۔‘‘ یہ فقرہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔ پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا کہ ’’تم بھی عثمان کے حق میں دعا کرو‘‘۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عثمانؓ نے غزوہ تبوک کے لیے 950 اونٹ اور 300 گھوڑے فراہم کیے۔
حضرت عثمانؓ نے غزوہ بدر کے سوا تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ بدر میں آپؓ اپنی اہلیہ، نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔ حضرت رقیہؓ کا انتقال غزوہ بدر کے موقع پر ہی ہوا تھا۔ جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا جس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہوگیا۔
جہاں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اپنی تلواروں سے داد شجاعت دینے کے لیے مشہور ہیں، وہیں حضرت عثمانؓ کے بڑے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت تلوار اٹھانے سے انکار کردیا جب باغی ان کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔
اسلامی تاریخ پر پر جرمن نژاد امریکی پروفیسر ویلفرڈ میڈلنگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قتل اور زنا کے مجرموں کے سوا کسی ایک مسلمان کو بھی حضرت عثمانؓ کے حکم پر قتل نہیں کیا گیا۔ میڈلنگ کے مطابق جب 17 جون 565 عیسوی کو جمعہ کے دن باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کے دروازے کو آگ لگائی اور اندر داخل ہوگئے تو آپؓ نے اپنے گھر کا دفاع کرنے والوں کو حکم دیا کہ وہ ہتھیار پھینک دیں تاکہ مسلمانوں کا خون نہ بہے۔ میڈلنگ کا کہنا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قریش اور بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے اپنے بیشتر محافظوں کو پہلے ہی واپس بھیج دیا تھا۔ البتہ ذاتی ملازمین اور چند محافظ وہاں موجود تھے۔ باغی جب حضرت عثمانؓ تک پہنچے تو کمرے میں صرف وہ اور ان کی اہلیہ نائلہ تھیں۔ آپؓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔
بعض دیگر روایات کے مطابق اس سے قبل حضرت عثمانؓ کو بار بار باغیوں کے قتال کا مشورہ دیا جا چکا تھا۔ لیکن آپؓ نے فرمایا ’’میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے، جسے میں پورا کروں گا۔ اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔‘‘
حضرت عثمان بن عفانؓ کی تلوار مسلمانوں کے خلاف کبھی نہ اٹھی۔ غزوات میں البتہ آپؓ نے ضرور شرکت کی۔ آپؓ اپنی سخاوت، سفارت کاری اور مسلمانوں کے اتفاق کے لیے جان قربان کر دینے کے لیے زیادہ مشہور ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول پاک ﷺ نے حضرت عثمانؓ ہی کو سفیر اور مذاکرات کار بنا کر مکہ بھیجا تھا۔
حضرت عثمانؓ سے منسوب 6 تلواریں توپ کاپی میوزیم میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک تلوار 100 سینیٹی میٹر طویل ہے اور اس کے قبضے کی چوڑائی محض 3 سینٹی میٹر ہے۔ یہ اس قسم کی تلوار ہے جو اس زمانے میں عرب اپنی ذاتی حفاظت کے لیے پاس رکھتے تھے۔
دیگر تلواروں میں سے دو دیدہ ذیب نقوش سے مزین ہیں۔ ان میں سے ایک کے بارے میں یہ حتمی طور پر واضح نہیں کہ وہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی ملکیت تھی یا عثمانی سلطنت کے بانی عثمان غازی (ارطغرل کے بیٹے) کی تھی۔ اس ابہام کا سبب یہ ہے کہ مذکورہ تلوار پر کائی قبیلے کا نشان بنا ہوا ہے۔
باقی ماندہ تین تلواریں حضرت عثمانؓ کے زمانے کے مطابق ہیں۔ ہر ایک کے بلیڈ پر ’’عثمان ابن عفان‘‘ تحریر ہے۔ (جاری ہے)
حضرت عثمان بن عفانؓ سے منسوب6 تلواریں توپ کاپی میوزیم میں موجود ہیں۔ تاہم ان میں سے ایک کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ ترک سطلنت کے بانی عثمان غازی کی ہوسکتی ہے۔
پہلی تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر اور وزن 622 گرام ہے۔ ایسی نسبتاً کم چوڑائی والی تلوار عرب ذاتی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ رسول کریم ﷺ کے پاس بھی ایسی ہی ایک تلوار موجود تھی جو آپ ﷺ سفر کے دوران اپنے ساتھ رکھتے۔ غزوات میں آپ ﷺ نے دوسری تلواریں استعمال کیں۔
حضرت عثمان بن عفانؓ کی مذکورہ تلوار ایک دھاری ہے۔ اس کے پھل (بلیڈ) پر کچھ الفاظ کنندہ ہیں جو وقت کے ساتھ اتنے مدھم ہو چکے ہیں کہ اب انہیں پڑھنا ناممکن ہے۔
تلوار مبارک کا دستہ چمڑے کا ہے۔ اس کے آخری سرے کی گولائی پیتل سے بنی ہے جب کہ دستے اور پھل کے درمیان موجود حفاظتی آہنی ٹکرا لوہے سے بنا ہے۔ یہ ایک انتہائی سادہ تلوار ہے۔
تاہم توپ کاپی میوزیم میں ہی موجود ایک اور تلوار شاندار خوبصورتی کی حامل ہے۔ حضرت عثمانؓ سے منسوب مذکورہ تلوار کی نمایاں خصوصیت اس کا دہرا پھل ہے۔ دونوں بلیڈ درمیان میں ایک جگہ ملتے ہیں لیکن بیشتر حصے میں الگ الگ ہیں۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کے مطابق اس طرح کا بلیڈ نہ صرف لڑائی کے مقاصد کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے جلد ٹوٹنے کا خدشہ بھی رہتا تھا۔ حلمی ایدین کے مطابق ایسی تلواریں صرف خوبصورتی کی وجہ سے رکھی جاتی تھیں۔
تلوارمبارک کے بلیڈ پر چاندی سے نقش و نگار بنے ہیں اور تحریر بھی موجود ہے۔ بلیڈ کے تقریباً درمیان میں بنایا گیا نقش ایک تلوار کا ہے جس کے حفاظتی آہنی ٹکرے کے سرے مڑے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب جو تحریر موجود ہے وہ دراصل عربی میں لکھی گئی ایک نظم ہے جس میں چاروں خلفائے راشدینؓ بالخصوص حضرت عثمانؓ کی تعریف کی گئی ہے۔ تلوار پر اسے تیار کرنے والے ہنر مند محمد ابن عبداللہ کا نام بھی درج ہے۔
بظاہر یہ تلوار حضرت عثمانؓ کے زمانے کے بعد کسی وقت تیار کی گئی اور آپؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آپؓ سے منسوب کی گئی۔ تلوار کی لمبائی 98 سینٹی میٹر اور وزن 956 گرام ہے۔ اس کا دستہ سیاہ پتھر سے بنایا گیا ہے۔ 88 سینٹی میٹر لمبی نیام پر سونے سے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔
تیسری تلوار 115 سینٹی میٹر طویل ہے جس کے بلیڈ پر سورۃ فاتحہ کی آیات، حضرت محمد ﷺ اور چاروں خلفائے راشدینؓ کے نام تحریر ہیں۔ تاہم اس خوبصورت تلوار کے بارے میں ابہام ہے۔ اس پر کائی قبیلے کی مہر بھی موجود ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ تلوار ترک سلطنت کے بانی اور کائی قبیلے کے سردار عثمان غازی کی تھی۔ حلمی ایدین کے مطابق تلوار کے بلیڈ پر آیات اور مقدس نام 16 ویں صدی میں کنندہ کیے گئے۔
حضرت عثمانؓ سے منسوب دیگر تین تلواریں تقریباً ایک جیسی ہیں۔ ایک کی لمبائی 90 سینٹی میٹر، دوسری کی100 سینٹی میٹر اور تیسری کی 103 سینٹی میٹر ہے۔ دو تلواروں میں ’’عثمان ابن عفان امیر المومنین‘‘ تحریر ہے جب کہ تیسری تلوارکے بلیڈ پر صرف ’’عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ‘‘ تحریر ہیں۔ ان تینوں تلواروں کے دستے ذرا سے مڑے ہوئے ہیں۔ ایک پر کلمہ طیبہ بھی تحریر ہے۔