نجم الحسن عارف:
حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے کے بعد معاہدے پر عمل کی رفتار سست رکھتے ہوئے تحریک لبیک اور اس کے کارکنوں کو اعصاب شکنی کا شکار بنانے کیلیے کارروائیاں تیزکردی ہیں۔ پریس کانفرنس کرنے پر مرکزی شوریٰ تحریک لبیک کے ارکان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیے۔
مرکزی شوریٰ کے ارکان کو شبہ ہے کہ عیدالفطر سے پہلے اور عیدالفطر کے دنوں میں تحریک لبیک کے مزید رہنمائوں کو مزید گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ رہنمائوں نے اپنے سیل فون بند کر دیئے اور گھروں یا دفاتر سے دور رہنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔
’’امت‘‘ کو تحریک لبیک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے درج کئے گئے ایک پریس کانفرنس پر کئی مقدمات کی ایف آئی آر سربمہر کر دی گئی ہیں۔ ان ایف آئی آرز میں اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ 1997 کے تحت لبیک کی مرکزی شوریٰ کے ارکان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان ارکان شوریٰ میں غلام عباس فیضی، ظہیر الحسن شاہ، غلام غوث بغدادی اور ڈاکٹر شفیق امرینی بطور خاص نمایاں جبکہ دیگر ارکان شوریٰ میں فاروق الحسن قادری اور خرم ریاض بھی شامل ہیں۔
واضح رہے تحریک لبیک کے رہنمائوں نے یہ پریس کانفرنس 6 مئی کی رات نماز تراویح کے بعد لاہور میں کی تھی۔ تاہم سی ٹی ڈی نے اپنے اہلکاروں کی شکایت پر مقدمات بعد ازاں اگلے روز درج کیے۔ ان مقدمات کی بنیاد وہ وڈیو کلپس بنے ہیں جو تحریک لبیک کے سوشل میڈیا گروپس کی جانب سے یو ٹیوب پر اپلوڈ کیے گئے۔
واضح رہے کہ پچھلے ماہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی زیر قیادت حکومت کے اعلیٰ سطح کے وفد نے کوٹ لکھپت جیل میں قید تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضو ی اور ان کی شوریٰ کے اہم ارکان کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ بعدازاں وزیر داخلہ نے اسلام آباد پہنچ کر نہ صرف یہ کہ وزیراعظم عمران خان کو اس معاہدے میں اعتماد میں لیکر ان سے شاباشی لی تھی، بلکہ اپنے آفس میں بیٹھ کر شیخ رشید احمد نے اس معاہدے کو دوبارہ کیمروں کے سامنے پڑھ کر قوم کو ’’ذہنی اذیت‘‘ سے نکالا تھا۔ اس معاہدے کے بعد ہی تحریک لبیک نے 21 اپریل کو اسلام آباد کی طرف اپنے احتجاجی مارچ کی کال واپس لے لی تھی۔
اب 6 مئی کی نیوز کانفرنس کے بعد جن ارکان شوریٰ پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کا اندراج سی ٹی ڈی پولیس کے مقامی تھانے میں کیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی ارکان وزیر داخلہ کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔ تحریک لبیک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے معاہدہ کر کے تحریک لبیک کا نہ صرف دھرنا ختم کرا لیا بلکہ اسلام آباد کی طرف مارچ بھی رکوانے میں کامیاب رہی۔ لیکن حکومت نے معاہدے کے کسی ایک نکتے پر بھی ابھی تک پوری طرح عمل نہیں کیا ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لینے کیلیے21 اپریل کے بعد سے اب تک تحریک لبیک کی شوریٰ کے تقریباً نصف درجن اجلاس کئے جا چکے ہیں۔ تمام اجلاسوں میں معاہدے پر عمل کی رفتار کا جائزہ لیا گیا اور نئی صورت حال میں تحریک لبیک کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ شوریٰ کا آخری اجلاس جس کے بعد نیوز کانفرنس کی گئی۔ اس میں حکومت کو بد عہدی کا مرتکب پایا گیا اور محسوس کیا گیا کہ حکومت معاہدے پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں، بلکہ تحریک لبیک کے اندر تفریق و انتشار کی منتظر ہے تاکہ اپنی من مانی کر سکے۔
’’امت‘‘ کو تحریک لبیک کے شوریٰ کے ارکان نے اس بارے میں بتایا کہ تین ہفتے سے گزر جانے کے بعد بھی حکومت نے معاہدے کے کسی ایک نکتے پر بھی عمل نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد بابت فرانسیسی سفیر، بھی بڑی ہوشیاری سے لٹکا دی گئی۔ جبکہ کارکنوںکی رہائیوں کی جگہ مزید گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ رہنمائوں اور کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نہیں نکالئے گئے۔ اس لئے شوریٰ نے اس صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ نیز ان تجاویز پر بھی غور کیا کہ مذہبی جماعتوں کی عید کے بعد اے پی سی بلائی جائے اور دوبارہ احتجاج کرنا پڑے تو اس کی تیاری کی جائے۔ واضح رہے کہ حکومت نے اسی عندیے کے بعد تحریک لبیک کی شوریٰ کے ارکان کے خلاف سی ٹی ڈی تھانے میں ایف آئی آرز درج کی ہیں۔
تحریک لبیک کے ذرائع نے بتایاکہ یہ ایف آئی آرز سی ٹی ڈی نے سربمہر کر دی ہیں تاکہ جب ضرورت پڑے تو انہیں نکال کر متعلقہ رہنمائوں کو گرفتار کر سکے۔ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی جنہیں حکومتی وعدے کے مطابق اب تک جیل سے باہر ہونا چاہیے تھا۔ ابھی تک جیل میں سزائے موت کے قیدیوں والی کوٹھڑی میں بند ہیں۔ اور انہیں رمضان کے دوران گھر سے سحری و افطاری کا سامان منگوانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی حتیٰ کہ پورے ایک ماہ کے دوران ان کے چھوٹے بھائی کو صرف ایک مرتبہ ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بعد سعد رضوی کے بھائی یا اہل خانہ میں سے کسی بھی دوسرے فرد یا جماعت کے رہنمائوں کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ نتیجتاً تحریک لبیک کے کارکنوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کارکنوں کا شوریٰ کے ارکان پر بھی دبائو آنے لگا ہے۔ حکومت نے معاہدے کے نکات پر عمل کرنے کے بجائے نئی گرفتاریاں کرنے کے ساتھ ساتھ اب براہ راست شوریٰ کے ارکان کے خلاف مقدمے بنانا شروع کردیے ہیں۔