پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت ہر معاملے پر کشکول ہاتھ میں اٹھائے پھرتی ہے اس طرح تو مسائل حل نہیں ہونگے۔
چیف جسٹس قیصررشید اور جسٹس ارشد علی پرمشتمل پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے پی ٹی وی کے ملازم کے سروس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ اگر ہماری حکومت کو ساری چیزوں کےلیے باہر کے ممالک سے بھیک اور مدد لینی ہے تو پھر یہ حکومت کس طرح چلا رہے ہیں، ہر ادارے کےلیے باہر سے ماہرین طلب کیے جائیں گے تو کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی نہیں جس میں اداروں کو ٹھیک کرنے کی اہلیت ہو؟، حکومت ہر معاملے پر کشکول ہاتھ میں اٹھائے پھرتی ہے اس طرح تو مسائل حل نہیں ہونگے، حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ہر چیز میں باہر سے امداد طلب کی جاتی ہے، اس میں خدشہ پیدا ہوگا کہ ملک کی سلامتی پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اگر باہر سے کوئی آکر آپ کےلئے ادارے ٹھیک کرتا ہے تو انکے مفادات کو بھی تو تحفظ ملے گا، کیا حکومت کو خبر نہیں کہ سرکاری ٹی وی خوشامد نامہ بن گیا ہے۔
پی ٹی وی کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کے سروس سے متعلق تمام امور یہاں سے فائنل کرکے اسلام آباد بھیجے گئے ہیں چونکہ اب وہاں پر پی ٹی وی کی ری اسٹرکچرنگ ہو رہی ہے اور بورڈ آف گورنر بھی تحلیل کر دیا گیا ہے اسلئے یہ تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔
پی ٹی وی کے وکیل نے بتایا کہ ایک پرائیوٹ فارم اس کی ری اسٹرکچرنگ کررہی ہے۔ چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ سرکاری ٹی وی صرف خوشامد نامہ بن گیا ہے لوگ لاکھوں تنخواہ لے رہے ہیں لیکن کچھ کام نہیں کرتے۔
عدالت نے منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی کو کل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔