کروڑوں افراد کے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نجی سطح پر ایک ڈاگ شیلٹر ہوم قائم کیا گیا ہے جس میں ابتدائی طور پر جڑواں شہروں سے 100 سے زائد کتے لائے گئے ہیں جہاں کتوں کو خوراک کے ساتھ طبی امداد بھی دی جاتی ہے۔
ڈاگ شیلٹر قائم کرنے والے غنی اکرم نامی شخص کا کہنا ہے کہ کتوں کو گولیاں مارنا اور زہر دینا مسئلے کا حل نہیں اس کے لیے حکومت کو کتا مار پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔
شیلٹر ہوم میں زخمی اور بیمار کتوں کی علاج فزیو تھراپی اور ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے۔ سینٹر میں مناسب صفائی انتظامات کے ساتھ بستر اور چار پائی کا بھی بندوبست موجود ہے۔
غنی اکرام کا کہنا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ کال کر کے ہمیں بتا دیتے ہیں اور ہم جا کر کتوں کو یہاں لے آتے ہیں۔ ہمارا ماہانہ خرچہ 5 سے 6 لاکھ روپے ہے ہمارے پاس اپنی کوئی کلینکل سہولت اس وجہ سے زیادہ تر سروس باہر سے ہی لینا پڑتی ہیں۔
ڈاکٹر غنی کہتے ہیں سرکار صرف رویہ اور پالیسی بدلے دستیاب وسائل میں کتوں سے متعلق سارے مسائل حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کی دس فیصد سے بھی زائد آبادی اس وقت خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائی کمی کا شکار ہوکر زندگی ہار جاتی ہے۔ پاکستان میں سالانہ لاکھوں افراد ادویہ اور علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ ملک میں آوارہ کتوں کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، مگر اس اسلامی ریاست میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جو انسان نہیں بلکہ انسان کو نقصان پہنچانے والے جانوروں کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔