حکومت اور پنجاب پولیس میں قادیانیوں کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کروں گا-فائل فوٹو
حکومت اور پنجاب پولیس میں قادیانیوں کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کروں گا-فائل فوٹو

’’صرف شہزاد اکبر ہی قادیانی نیٹ ورک کا حصہ نہیں‘‘

نجم الحسن عارف:
پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر احمد چوہان نے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر مرزا کے بارے میں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک عرصے سے شہزاد اکبرکے بارے میں آگاہ تھے کہ ان کا تعلق قادیانی گروہ سے ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ انکشاف کسی ردعمل یا انتقامی جذبے سے ہر گز نہیں کیا۔ پارٹی میں ہی نہیں۔ پارٹی سے باہر بھی لوگ کم از کم پچھلے پانچ برسوں سے شہزاد اکبرکے قادیانی ہونے سے آگاہ ہیں۔ میں اس سلسلے میں وزیر اعظم سے ملاقات کروں گا۔ اور انہیں بتائوں گا کہ اس طرح کے لوگ حکومت کو کس کس طرح نقصان پہنچا رہے تھے اور ان کی نیٹ ورکنگ مضبوط تر ہے۔
’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے رکن پنجاب اسمبلی نذیر احمد چوہان نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے مشیر کے بارے میں قادیانی ہونے کا انکشاف کسی ردعمل یا انتقامی کارروائی کے طور پر نہیں کیا۔ بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ واضح رہے کہ نذیر احمد چوہان پی ٹی آئی میں حال ہی میں بننے والے جہانگیر ترین گروپ کے انتہائی فعال رکن ہیں۔

’’امت‘‘ نے ان سے پوچھا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر کے بارے میں ان کا یہ انکشاف کسی ایسی وجہ سے تو نہیں کہ وہ جہانگیر ترین کے خلاف کیسز میں مبینہ طور پر کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے شہزاد اکبر کو انتقام یا سخت ردعمل کے سبب ٹارگٹ کیا ہے۔ اس پر نذیر چوہان نے کہا ’’جی ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ ہی شہزاد اکبر کے اقلیتی پس منظر کا علم مجھے اب آ کر ہوا ہے۔ کم ازکم میں یہ پچھے پانچ برس سے جانتا ہوں۔ صرف میں ہی نہیں۔ بہت سارے دوسرے لوگوں کے علم میں ہے۔ فرق یہ ہے کہ میں نے یہ بات کر دی ہے کہ مجھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبت کے تعلق نے مجبور کیا ہے۔ وگرنہ میں بھی خاموش رہتا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں نذیر احمد چوہان نے ’’امت‘‘ کو بتایا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ میں نے اس امر کا انکشاف کر کے ایک بڑا رسک لیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں زندگی میں بڑے بڑے رسک لینا ہوتے ہیں۔ یہ رسک نبی کریمؐ کی محبت کے سبب لیا ہے۔ اس لئے مجھے رسک کی پروا نہیں ہے۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ ملک میں کوئی میڈیا والا یا حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی پوچھیں کہ ان کے علم میں یہ بات کب سے ہے اور اس کے باوجود انہیں یا اس طرح کے لوگوں کو حساس عہدوں پر کیوں بٹھایا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ علم کم از کم پچھلے پانچ برسوں سے ہے۔ اب یہ ساری میری ذمہ داری تو نہیں کہ میں ہی اس پر ہر سوال کا جواب دوں اور بات کروں۔ ہمارے ملک کے اہم اداروں کی بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ اور حکمرانوں کی بھی‘‘۔
ایک اور سوال پر نذیر احمد چوہان نے کہا ’’میں نے وزیراعظم عمران خان سے اس بارے میں پہلے کبھی بات نہیں کی۔ تاہم اب جلد میں ان سے ملاقات کروں گا اور انہیں حکومت و انتظامی مشینری کے اندر قادیانی نیٹ ورک کے حوالے سے بھی آگاہ کروں گا کہ یہ لوگ کس طرح پارٹی اور حکومت دونوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔ قادیانی نیٹ ورک کا حصہ شہزاد اکبر اکیلے نہیں۔ حکومت میں کئی اور بھی شامل ہیں۔ انہی میں سے ایک ایف آئی اے میں ابو بکر خدا بخش ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب پولیس میں کئی افسران ہیں جو باہم رابطے میں ہیں۔ میں ان سب کے بارے میں وقت آنے پر انکشاف کروں گا۔ یہ کس طرح مل کر چیزوں کو اپنی پسند اور مفاد کے تابع کرتے ہیں۔ یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے۔ باہم مربوط اور منظم ہے‘‘۔

شہزاد اکبر مرزا کی جانب سے قادیانی ہونے کی تردید کرنے کے بارے میں نذیر چوہان نے کہا۔ ’’ان کی تردید کے کوئی معنی نہیں۔ اگر ان کے موقف میں سچائی ہے تو وہ سامنے لائیں اور ٹی وی ٹاک شو میںسب کے سامنے قادیانیت سے برأت کا اعلان کریں۔ اگر شہزاد اکبر نے اپنے مسلمان ہونے اور قادیانی نہ ہونے کے ثبوت دے دیئے تو ان سے معذرت کروں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ نوبت نہیں آئے گی‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا۔ ’’بلاشبہ شہزاد اکبر نے میرے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ میں اس وجہ سے آج اتوار کے روز تھانے میں بھی گیا تھا۔ میں نہ صرف اس مقدمے کا سامنا کروں گا۔ بلکہ خود بھی شہزاد اکبر کے خلاف جلد عدالت سے رجوع کروں گا۔ پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی آسانی سے ہو جائے گا۔ جو شہزاد اکبر اپنے قادیانی ہونے کا انکار کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی پہلے اپنے آپ کو قادیانی مانتے رہے ہیں۔ وہ ربوہ بھی جاتا رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ قادیانیوں کی ربوہ میں ہونے والی ’’مینگو پارٹی‘‘ میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان کا ربوہ کے ساتھ گہرا رابطہ ہے۔ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہوں اور اللہ کے نبی ﷺ کی محبت نے مجھے اس سلسلے میں مجبور کیا۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔ آئندہ دنوں میں ان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں بھی تفصیلات عوام کے سامنے لائوں گا‘‘۔
اس سوال پر کہ ابو بکر خدا بخش ایسے جانے پہچانے قادیانی افسر کو واجد ضیا کس وجہ سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یا شہزاد اکبر ہی سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔ نذیر چوہان نے کہا ’’میں اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہی چیزیں سامنے آئیں گی۔
’’امت‘‘ نے شہزاد اکبر (مشیر وزیراعظم) سے بھی بار بار فون کر کے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ میسیج کرکے بھی کہا کہ اس بارے میں آپ کا موقف کیا ہے۔ لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ نہ ہی کال اٹینڈکی گئی۔ ان سے یہ بھی پوچھنا مقصود تھا کہ اپنی تردید کے ساتھ آیا وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اللہ کا نبی نہیں تھا۔ نیز اس کے ماننے والے پاکستان کے آئین کے مطابق کافر ہیں اور وہ بھی انہیں کافر ہی سمجھتے ہیں۔ مگر انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔
’’امت‘‘ نے اسی بارے میں جہانگر ترین گروپ کے اہم رہنما سعید اکبر نوانی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جہاں تک ابو بکر خدا بخش کا تعلق ہے وہ تو خود بھی اپنے قادیانی ہونے کا انکاری نہیں ہے۔ ابو بکر خدا بخش کا میرے ضلع بھکر سے تعلق ہے۔ اس لئے میں ان کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن شہزاد اکبر کے بارے میں نذیر چوہان نے جو بات کی ہے، وہ یقینا تحقیق اور معلومات کی بنیاد پر کی ہو گی۔ لیکن میرے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ان کا جو بھی عقیدہ ہے، اسے رکھنے کا حق ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا۔ ’’شہزاد اکبر نے نذیر چوہان کے خلاف جو ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ انہیں یہ نہیں کرانی چاہیے تھے۔ انہیں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ اب تو معاملہ مزید ہائی لائٹ ہونے کی انہوں نے راہ ہموار کر دی ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ اگر نذیر چوہان صوبائی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں یہ معاملہ اٹھاتے ہیں تو اس بارے میں کیا رائے ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ ’’یہ موقع پر ہی بتائوں گا۔ لیکن میری اس وقت رائے یہ ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور نظر انداز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی‘‘۔