قدرت مہربان، یمن میں غریب ماہی گیر راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق یمن میں ماہی گیروں کے ایک گروپ کو خلیج عدن کے ساحل پر ایک مردہ وہیل مچھلی کے پیٹ میں سے ایک نایاب خزانہ ملا جس کی مالیت 1.5 ملین ڈالر ہے جو پاکستان روپوں میں 23 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
ان ماہی گیروں کے مطابق وہیل مچھلی کے پیٹ سے نکلے قیمتی مادہ کو انہوں نے فوراً فروخت کر دیا اور ایک ہی جھٹکے میں 1.5 ملین درہم ڈالر کما لیے جس سے ان کی غربت کا خاتمہ ہو گیا۔
ماہی گیروں کے مطابق اس قیمتی خزانے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم انہوں نے آپس میں برابر تقسیم کی، کچھ ماہی گیروں نے ان پیسوں سے جائیدادیں خریدی، کچھ نے مہنگی گاڑیاں جب کہ کچھ نے اپنی شادیوں کے انتظام کے لیے رقم محفوظ کرلی ہے۔
ماہرین کے مطابق وہیل مچھلی کے پیٹ میں پایا جانے والا یہ مادہ ایمبر گرس یعنی عنبرپرفیوم مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے جو مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اس خوشبودار عنبر کو وہیل مچھلی کا فضلہ بھی کہا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق عظیم یونانی ماہر حیاتیات اورفلاسفر ’’ تھیوفہارسٹس‘‘ (Theophrastus) وہ پہلا شخص تھا جس نے لگ بھگ چارسوسال قبل مسیح میں عنبر کے خواص کے بارے میں تحقیق کی تھی۔
تحقیق سے ثابت ہوا تھا کہ عنبر زیادہ تر ان ساحلی علاقوں میں پایا جاتاہے جہاں ماضی میں صنوبری جنگلات کی بہتات تھی بعد ازاں یہ درخت زیر آب آگئے اور ان کی رال یا گوند درختوں سے علیحد ہو کر دلدلی پانی اور ساحلی پہاڑیوں میں پھیل گئی اور مخصوص کیمیائی عوامل کے بعد نیم دائروی شکل کے ٹھوس عنبروں میں تبدیل ہوگئی جنہیں غوطہ خور اور تاجر حضرات تلاش کر کے فروخت کرتے ہیں۔
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ سمندر میں ایک خاص قسم کا پودا اگتا ہے جس کو سمندری مخلوق کھالیتی ہے اور بطور فضلہ کے خارج کردیتی ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق یہ مادہ ایک بڑی جسامت والی مچھلی کے پیٹ سے نکل کر سطح آب پر جمع ہو جاتا ہے اس وجہ سے اس مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جوعنبر کو نگلتی اوراگلتی ہے۔
یہ مچھلی اپنے بڑے سر کی وجہ سےدیگر مچھلیوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس مچھلی کا شکار کرکے اس کے پیٹ سے بھی عنبرنکال لیا جاتا ہے۔