مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن قومی اسمبلی شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر اپیل واپس لے لی ۔
نجی ٹی وی کے مطابق شہباز شریف اور حکومت کے مابین کھلی عدالت میں معاملات طے پائے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف کو جس طرح ریلیف دیا گیا وہ کسی کیلیے مثال نہیں بن سکتا۔ شہباز شریف کے وکیل نے بھی توہین عدالت کیس کی پیروی نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ میں وفاقی حکومت کا موقف سنا گیا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اپیل میں عدالت پر کوئی الزام نہیں ، عدالت وفاق کی اپیل کو دو ٹرمز پر نمٹا دے ،لاہور ہائیکورٹ کا بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا فیصلہ مثال نہ بن جائے ۔عدالت نے کہا کہ شہباز شریف کو جس طرح ریلیف دیا گیا وہ کسی کیلئے مثال نہیں بن سکتا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوجداری مقدمات میں ملزم کی نقل و حرکت کو کیسے محدود کیا جا سکتا ہے، یہ رجحان بن گیا ہے ، نیب والے ارکان پارلیمنٹ کوپکز لیتے ہیں اور نیب ریفرنس میں 140 گواہان کے نام شامل کر دیتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کا ٹرائل کرنےو الے جج کا ہائیکورٹ نے تبادلہ کر دیا۔ وکیل شہباز شریف نے کہا کہ احتساب عدالت کا نیا جج لگانے میں کیا مسئلہ ہے جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احتساب عدالت کا نیا جج تعینات کرنے میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں ، شاید شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ان کا کیس جلدی نمٹ سکے، جج کو جس انداز میں وقت سے پہلے ہتایا گیا، اس پر حکومت کو اعتراض ہے ۔رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نئے ججز کی تعیناتی کیلیے بھجوا دیے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے آج لاہور ہائیکورٹ کی عدالتی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا ، رجسٹرارلاہور ہائیکورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا کیس سسٹم کے تحت مقرر ہوا یا خاص طور پر درخواست اعتراض کے لئے مقرر ہوئی تھی ۔
رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے عدالت کو بتایا کہ فیصلہ ہوا تھا اعتراض پر فیصلہ درخواست کے ساتھ ہی ہوگا۔ جمعہ کو 9:30 پراعتراض لگا اور11:30 پرکیس کی سماعت ہوئی، حکومتی وکیل کو ہدایت لینے کیلیے صرف 30 منٹ دیئے گئے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ایک سال میں کتنے مقدمات کی جمعہ کو 12:00 بجے سماعت ہوئی ، بتایا جائے کہ کتنے مقدمات میں یکطرفہ ریلیف دیا گیا۔ ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ شہباز شریف کا نام کس لسٹ میں ہے ۔