سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے حکومتوں کے بدلنے سے نیب کے رویے میں بھی جھکاؤ آتا ہے۔
سپریم کورٹ میں رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے حکومتوں کے بدلنے سے نیب کے رویے میں بھی جھکاؤ آتا ہے، بہت سے مقدمات میں نیب نے اپیلیں تک دائر کرنے سے انکار کردیا، عام پٹواریوں کے مقدمات میں نیب اپیل کیے بغیر رکتا نہیں، آج بھی اپنوں کے مقدمات اینٹی کرپشن کو دیے جاتے ہیں، جو مخالف ہوتا ہے اس کو نیب میں پھنسا دیا جاتا ہے، نیب کی غیر جانبداری تو آپ اور ہم سب جانتے ہیں، نیب مقدمات میں ضمانت صرف ہارڈ شپ اصولوں پر ہی ہو سکتی ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب نے اثاثوں کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار نہیں بتایا، خورشید شاہ پر کہیں بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ حقائق سامنے آنے پر ٹرائل کورٹ خود بھی چارج فریم کرسکتی ہے۔
عدالت نے خورشید کے بیٹے فرخ شاہ اور اہلخانہ کے وکلا کے عدم حاضری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر نوٹس کے باوجود وکیل فاروق نائیک عدالت نہیں آتے تب بھی ہم کیس کو چلائیں گے، کیس میں اگر فریقین پیش نہیں ہوئے تو اپیلیں خارج کر دیں گے، جب نیب کو معلوم ہے کہ ملزمان تعاون نہیں کرتے تو ضمانت منسوخی کی درخواست کیوں دائر نہیں کرتے؟ جب ضمانتی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ٹرائل کورٹ میں ابھی تک نیب نے 514 کی درخواست کیوں نہیں دی؟
خورشید شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ خورشید شاہ کے مبینہ بےنامی داروں کو ریفرنس میں شامل نہیں کیا گیا، ان کے خلاف 2012 میں نیب میں تحقیقات بند کر دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے خورشید شاہ کی دونوں بیگمات، بیٹے فرخ شاہ، سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ سمیت تمام ملزمان کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔