سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدرآباد کے جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس محمد سلیم جیسر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ1989کو آئین، چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے رولز2017کو سندھ گورنمنٹ رولزآف بزنس1986 اور سندھ پبلک سروس کمیشن فنکشنز)رولز 1990کو سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ 1989کے خلاف قرار دیتے ہوئے پبلک سروس کمیشن کے موجودہ ڈھانچے کو معطل کردیا۔
عدالت عالیہ نے ایس پی سی ایس کے مذکورہ تمام ایکٹ و رولز کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ایس پی ایس سی ایکٹ 1989 کے تحت تمام ٹیسٹ، انٹرویوز، سلیکشنز، بھرتیاں اور ٹینڈرز وغیرہ کو بھی معطل رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جبکہ عدالت عالیہ نے2018میں لیے جانے والے مقابلے کے امتحانات اور محکمہ صحت میں1783میل و فی میل ڈاکٹرز کی ہونے والے بھرتیوں کو منسوخ کر دیا ہے۔
عدالت عالیہ میں مختلف اضلاع کے رہائشیوں کی پبلک سروس کمیشن میں اقربا پروری سمیت دیگر الزامات کے تحت دائر کردہ مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کے بعد محفوظ کردہ تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،درخواست گذار عمارہ گوہر، عاصمہ، مسماۃ روبینہ بیگم، ناہید اختر، عبداللھ، امتیاز تھیبو و دیگر نے مختلف ادوار میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والی مختلف بھرتیوں اورامتحانات میں اقرباپروری، من پسند امیدواروں کو نوازنے سمیت دیگرالزامات کے تحت آئینی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس ذوالفقار احمد خان نے تحریر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے حوالے سے سوموٹو ایکشن کے دوران بڑی خلاف ورزیاں اور غیرقانونی بھرتیوں کا پتہ لگایا تھا۔ کمیشن کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار میں بہتری کیلئے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔