امت رپورٹ:
کراچی کے علاقے کڈنی ہل پارک میں شہید مسجد الفتح کے ملبے پر دو ہزار سے زائد نمازیوں نے جمعہ ادا کیا۔ اما م مسجد نے اپنے خطبے میں تمام نمازیوں کو صبراوردعا کی تلقین کی۔ نمازیوں کو ہدایت کی گئی کہ تمام مقامی افراد یہیں با جماعت نماز ادا کریں۔ مسجد کی شہادت پرغمزدہ بعض نمازیوں نے جذباتی نعرے لگانے کی کوشش کی تو مسجد کمیٹی کے اراکین نے انہیں خاموش کرا دیا۔ سخت گرمی کے باوجود نمازیوں نے تحمل سے امام مسجد کا بیان سنا اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی۔
کڈنی ہل میں شہید ہونے والی مسجد الفتح کی کمیٹی نے جمعہ کی نماز کے لیے بہترین انتظامات کیے تھے۔ صبح دس بجے ہی مسجد کی جگہ کو صاف کرکے وہاں شامیانہ باندھا گیا تھا تاکہ دھوپ تیز ہونے کی صورت میں نمازیوں کو چھاؤں میسر آسکے۔ اس ضمن میں علاقہ مکینوں اور مسجد کمیٹی نے نماز کے لیے آنے والے نمازیوں کو باتھ روم کے علاوہ تمام سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی۔ کمیٹی نے ٹوٹے پھوٹے وضو خانے کی زمین پر وضو کیلیے درجنوں لوٹے فراہم کیے۔ وضو کیلیے علاقہ مکینوں نے پانی کی بوتلیں فراہم کیں۔ بیشتر نمازی گھروں سے وضو کرکے آئے تھے۔ جبکہ علاقے میں کام کے سلسلے میں آنے والے لوگوں نے وہیں وضو کیا اور نماز کا اہتمام کیا۔
مسجد کمیٹی کے رکن محمد علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مسجد کمیٹی نے شامیانہ بندھوایا تاکہ نمازیوں کو سخت دھوپ میں کچھ راحت مل سکے۔ انہوں نے بتایا کہ شامیانہ صبح دس بجے باندھا گیا ہے اور اسے نماز کے بعد اٹھالیا جائے گا۔ عام طور جمعہ میں یہاں نمازیوں کی تعداد 600 ہوتی ہے۔ تاہم مسجد کی شہادت کے باعث مکینوں نے آج جمعہ کے اہتمام کے لیے دفاتر سے چھٹی کی یا بعض لوگ جلدی آگئے تاکہ اپنی الفتح مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کرسکیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ مکین، مسجد کی شہادت کے بعد مغموم ہیں اور کمیٹی کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کررہے ہیں۔
مشاہدے میں آیا کہ مسجد الفتح کے سابقہ احاطے سے بڑا شامیانہ لگایا گیا تھا، جس میں 14 صفیں بچھائی گئی تھیں۔ ہر صف میں تقریباً 90 سے 110 افراد بیٹھے تھے۔ نماز جمعہ کا خطبہ سے قبل ہی مسجد کا شامیانہ والا احاطہ نمازیوں سے بھر گیا تھا اور نمازیوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ نمازی دن بارہ بجے سے ہی مسجد میں پہنچنا شروع ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے کمیٹی کو احاطے سے دوسری طرف بھی صفیں بچھانی پڑیں۔ پیش امام مفتی عثمان کے بیان شروع کرنے سے قبل ہی دوسرا حصہ میں بچھائی گئی صفیں بھی بھر گئیں۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے وہاں بارہ صفیں بچھائی جاسکیں جس کی ہر صف میں چالیس سے زائد نمازی بیٹھ گئے۔
امام مسجد نے اپنے خطبے میں کہا کہ ’’میں علاقہ مکینوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے مسجد کی شہادت کے باوجود ایمانی جذبے کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد الفتح کا رخ کیا۔ یہ مسجد تمام مکینوں کے لیے ہی تھی جسے شہید کردیا گیا۔ ہم مسجد کے ملبے کے ساتھ ہی پنج وقتہ نماز ادا کریں گے۔ آج جمعہ کی نماز میں مکینوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ یہاں کے مکین ثابت قدم ہیں اورایمانی جرات کے ساتھ یہاں نمازکی ادائیگی کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں خانہ خدا کو آباد کرنا ہے۔ مسجدیں آباد ہونے سے علاقے میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ جہاں مسجد نہ ہو وہاں کی بے رونقی انسان کو کھانے لگتی ہے۔ ہماری مسجد کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شہید کیا گیا ہے۔ جو عناصر اس کے پیچھے ہیں، ہم ان کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ انہیں ہدایت نصیب فرما۔ ہم نے ہمت نہیں ہارنی۔ ہم نے ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ مشکل وقت ہے، ہم مسجد کو آباد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اللہ اس نیک کام میں ہماری مدد فرمائے گا۔
امام مسجد نے کہا کہ ریاست مدینہ کے قیام کا دعویٰ کرنے والوں کی تقریریں دیکھیں اور ان کے اعمال دیکھیں۔ کراچی کے متعدد علما ہم سے رابطے میں ہیں اور ہمارا حوصلہ بڑھارہے ہیں۔ یہاں کے مکینوں کے حوصلے بھی بلند ہیں۔ ہم سب کو مسجد کی شہادت پر صبر کرنا ہے اور اس کی بحالی کے لیے اللہ کے حضور دعا کرنی ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو عناصر اسلام اور مساجد کے دشمن ہیں، ان کا حساب اللہ ہی کرے گا۔ ہماری مسجد کی تمام دستاویزات اصل ہیں اور انہیں جعلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صاحب اقتدار کو ہمارا مؤقف سننا ہی ہوگا۔ مسجد کا قیام مومن کے ایمان کی علامت ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم تمام نمازیں با جماعت اسی مسجد میں ادا کریں۔ مسجد کے حوالے سے شرعی حکم موجود ہے کہ جس جگہ مسجد قائم کردی جائے وہ جگہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ہمیں مسجد کی بحالی اور از سر نو تعمیر کے لیے اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کرنی ہے۔ انشا اللہ وہ ہماری دعاؤں کو قبول و منظور فرمائے گا۔
امام مسجد نے بیان کے بعد جمعہ پڑھایا اور دعا کرائی۔ پیش امام نے مسجد کے حوالے خبریں اجاگر کرنے پر روزنامہ ’’امت‘‘ کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور’’امت‘‘ اور اس کی ٹیم کے لیے دعا بھی کرائی۔ جب کہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے آنے والے نمازیوں نے مسجد کی شہادت پر غم و غصہ کا اظہارکیا۔
مسجد سے متصل فاران سوسائٹی کے رہائشی عادل کاکہنا تھا کہ وہ کچھ نمازیں ادھر پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جب سے مسجد کی شہادت کا واقعہ ہوا ہے، دل غم سے بوجھل ہے۔ سمجھ نہیں رہا کہ ہم اپنی طرف سے کیا کریں؟ مسجد قائم کرنے کے لیے حکومت کو پیسے درکار ہیں تو کمیٹی کو بتائے۔ یہاں کے مکین ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجائیں گے۔ یہاں کے مکینوں نے اللہ نے بہت نوازا ہوا ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ جب تک مسجد تعمیر نہیں ہوتی، ہم نماز اسی ملبے پر ادا کرتے رہیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیں کسی بھی جگہ نماز کی ادائیگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
ایک دوسرے نمازی محمد فیصل کا کہنا تھا کہ ’’ہم برسوں سے اسی مسجد میں نماز جمعہ پڑھتے ہوئے آئے ہیں۔ یہ مسجد ہمارے گھر سے نزدیک ہے۔ میں حکومت سے یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ قانون کے مطابق اس مسجد کو قانونی تسلیم کرتے ہوئے یہاں مسجد کے قیام کی منظوری دی جائے۔‘‘ فاران سو سائٹی کے رہائشی حمید نے بتایا کہ ’’جب سے نماز پڑھنا سیکھا ہے، اسی مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے لیے جان مال سب حاضر ہے۔ حکومت کو اگر مسجد کی تعمیر کے پیسے نہیں دیے تو وہ نہ دیں۔ ہمیں بس اجازت دلوادیں، اجازت ملتے ہی یہاں عالیشان مسجد تعمیر کردی جائے گی۔‘‘
ایک نمازی عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’میں یہاں قریب میں جاب کرتا ہوں۔ چھ سال سے یہاں تین وقت کی نمازوں کی ادائیگی کیلئے آتا ہوں۔ مسجد کو شہید نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب اگر مسجد شہید کردی گئی ہے تو یہاں کے مکینوں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کیلئے مسجد کا قیام ناگزیر ہے۔ مسجد کی شہادت کے باوجود دو ہزار سے زائد مکینوں کی نماز جمعہ کے لیے آمد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہاں مسجد کا قیام مکینوں کی اہم ضرورت ہے۔‘‘