سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔فائل فوٹو
سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔فائل فوٹو

حق مہر تو ہر حال میں دینے پڑے گا۔لاہور ہائیکورٹ نے ٖفیصلہ سنا دیا

لاہور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اہم قانونی نکتہ طے کردیاہے کہ حق مہر میں لکھی گئی ہر چیز شوہر بیوی کو دینے کا پابند ہے ۔جسٹس انوار حسین نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ حق مہر میں لکھی گئی کسی بھی چیز سے شوہر کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا ، حق مہر میں لکھا گیا پانچ مرلے کا گھر بیوی کو دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے شوہر کی درخواست مسترد کردی ۔

تفصیلات کے مطابق مظفر گڑھ کے رہائشی محمد قیوم نے ریحانہ شمس سے شادی کی اور نکاح میں بطور حق مہرپانچ مرلے کا گھر اور تین تولہ طلائی زیور دینے کا وعدہ کیا لیکن بعدازاں گھر دینے سے انکار ی ہو گیا ، بیوی نے اپنا حق لینے کیلیے عدالت سے رجوع کیا جس پر ٹرائل کورٹ نے بیوی کی استدعا منظور کرتے ہوئے گھر بیوی کو دینے کا حکم دیا ، شوہر نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ۔

جسٹس انوار حسین نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے شوہر کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی ،عدلت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نکاح نامے میں حق مہر کے خانے میں درج چیزیں بیوی کو دینے کا اگر وقت متعین نہیں تو شوہر بیوی کی ڈیمانڈ پر اسے دینے کا پابند ہے، مسلم شادی کی روح کے مطابق حق مہر دینا قرآن اور حدیث کی روشنی میں فرض ہے، حق مہر کی رقم شادی کے موقع پرادا کی جاتی ہے تاہم فریقین کی رضامندی سے اس میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے، آرڈینس کے تحت شادی سول معاہدہ ہے اور سیکشن 5 کے تحت اسے رجسٹرڈ کرنا ضروری ہے، موجودہ کیس میں نکاح نامے کے کالم سولہ میں مکان کے حوالے کی بات کی گئی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مکان کے انتقال کے حوالے سے کچھ لکھا نہیں گیا جو متنازع ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں نکاح نامے کے کالم انڈرٹیکنگ (حلف نامہ) ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شوہر اس بات کا پابند ہے کہ نکاح نامے کے کالم 13سے 16 میں درج چیزیں بیوی کو دے، اس موقع پر ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔

درخواست گزار شوہر کا کہنا تھا کہ نکاح نامے میں پانچ مرلے کا گھر بیوی کو دینے کا لکھا لیکن ٹرانفسر کے حوالے سے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ، دونوں پارٹیز کے درمیاں شادی ابھی بھی قائم ہے، عدالت ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا حکم دے۔ دوسری جانب خاتون کے وکیل نے مسلم فیملی لا آرڈینس کے سیکشن 10 کا حوالہ دیا اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کی استدعا کی تھی۔