امت تحقیقاتی ٹیم:
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پٹہ سسٹم پر لینے والے یونس میمن نے سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے فرنٹ مین محمد فاروق کو پٹہ سسٹم کا نگراں مقرر کر دیا۔ جبکہ سابق ڈی جی ایس بی سی اے آغا مقصود عباس کو ہدایت کی ہے کہ وہ فاروق سے احکامات لیتے ہوئے پٹہ سسٹم کو چلائے۔ سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوارکا فرنٹ مین محمد فاروق محمکہ کچی آبادی کے انجینئر کاشف خان کے ساتھ میدان میں اتر گیا ہے۔
انجینئر کاشف خان متحدہ بحالی پارٹی کا عہدیدار ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ یونس میمن نے فاروق کو ہدایت کی ہے کہ وہ آغا مقصود عباس کو ٹیکنیکل معاونت کے لئے اسعمال کرے۔ جس کے بعد فاروق نے انجینئر کاشف خان اور اس کے بھائی معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان کو اپنا مشیر بنالیا ہے۔ انجینئر کاشف خان کو یونس میمن کا پٹہ سسٹم غیر قانونی طور پر کچی آبادی شعبے سے ایس بی سی اے میں لے کر آیا ہے۔ جو سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ فاروق کو پٹہ سسٹم کا نگراں بنائے جانے کے بعد سابق ڈی جی آغا مقصود عباس نے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ سے اپنی قربت بڑھانی شروع کر دی ہے۔ آغا مقصود عباس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے یونس میمن کا پٹہ سسٹم اس سے سخت ناراض ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا پٹہ سسٹم لینے والے یونس قدوائی عرف یونس میمن سابق ڈی جی ایس بی سی اے آغا مقصود عباس کی جانب سے اس کا نام منظر عام پر لانے کی وجہ سے سخت ناراض ہے۔ یونس میمن اپنا نام منظر عام پر آنے کے بعد آغا مقصود عباس کو فوری طور پر پٹہ سسٹم سے الگ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے بعض دوستوں نے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ ایسا کرنے کی صورت میں بنا بنایا سیٹ اپ خراب ہو جائے گا۔
اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس سے ناراض سندھ سرکار کے بعض مشیران نے آغا کو سائیڈ لائن کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی دوران سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یونس میمن سے رابطہ کیا اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا سارا سسٹم اپنے فرنٹ مین فاروق کے حوالے کرنے کی تجویز دی۔ ذریعے کے مطابق ماضی میں جب آغا مقصود عباس ڈی جی ایس بی سی اے تھا، تو فاروق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 4 ٹائون جمشید ٹائون 1، جمشید ٹائون II، گلشن اقبال ٹائون I، گلشن اقبال ٹائون II کو پٹہ سسٹم پر چلارہا تھا۔ اس دوران اس نے مضبوط نیٹ ورک بنا لیا تھا۔ اسی دور میں فاروق کے معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان سے قریبی مراسم ہوگئے تھے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایس پی رائو انوار نے اپنے فرنٹ مین فاروق کی مکمل گارنٹی لی ہے اور یونس میمن سے کہا ہے کہ آغا مقصود عباس اگر فاروق کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے تو وہ کراچی سے لے کر اندرون سندھ تک سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا پٹہ سسٹم چلا سکتا ہے۔ ذریعے کے مطابق اس حوالے سے یونس میمن نے منظور قادر کاکا اور سندھ سرکار کے بعض ذمہ داران سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی سابق ایس ایس پی رائو انوار کے فرنٹ مین فاروق کو پٹہ سسٹم کا کنٹرول دینے کی حمایت کی۔ جس کے بعد یونس میمن نے ایس بی سی اے میں اپنا فرنٹ مین فاروق کو مقرر کر دیا ہے اور آغا مقصود عباس سے کہا ہے کہ وہ فاروق کے احکامات مانے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ فاروق سابق ایس ایس پی رائو انوار کے نام سے افسران کو ڈرانے دھمکانے میں ماہر ہے۔ اس کا ضلع ملیر کے بعض تھانوں میں بھی مضبوط نیٹ ورک ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ضلع ملیر میں زیادہ تر تھانوں میں ہیڈ محرر فاروق کی پسند کے لگائے گئے ہیں۔
ذریعے کے مطابق فاروق نے ایس بی سی اے کے پٹہ سسٹم کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں آنے کے بعد ایس بی سی اے کے بعض افسران سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ اس ساری صورت حال سے سابق ڈی جی آغا مقصود عباس سخت پریشان ہے۔ کیونکہ اسے اب فاروق کنٹرول کرے گا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس نے اپنے بعض چہیتے افسران سے کہا کہ فاروق چند روز ہی اس سسٹم میں چل پائے گا۔ وہ جلد اسے اس سسٹم سے الگ کرا دے گا۔ آغا کا کہنا تھا کہ اس نے پٹہ سسٹم کے لئے غیر قانونی تعمیرات کرنے والے 70 فیصد بلڈروں سے بھتہ وصول کرلیا ہے اور اب فاروق وہ رقم سسٹم کو نہیں دے سکتا، جو وہ دو ماہ میں دے چکا ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ فاروق کو اس حوالے سے مسائل درپیش آئیں گے۔ کیونکہ آغا مقصود عباس کا ایک مضبوط سسٹم ہے اور آغا کے سسٹم کو اسی طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے مہروں سے ذمہ داریاں لے لی جائیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان کو اپنا قریبی سمجھتا تھا۔ لیکن ایسی اطلاعات ہیں کہ عاصم خان پٹہ سسٹم کے نئے مرکزی بیٹر فاروق سے اپنے رابطے بڑھا رہا ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ فاروق ایک بار پھر غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈروں کا نیا ڈیٹا بنوا رہا ہے۔ ذریعے کے مطابق فاروق کو سارا کنٹرول ملنے کے بعد آغا مقصود عباس نے اب صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے نام کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ آغا مقصود عباس کی کوشش ہے کہ وہ ناصر حسین شاہ کے ذریعے فاروق کو سسٹم نہ چلانے دے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس خود کو ناصر حسین شاہ کا قریبی دوست بتاتا ہے اوراس نے لیاری میں صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے نام پر بعض بلڈروں سے بھاری رقوم لے کران کی ضلعی ڈائریکٹر سے جان چھڑائی ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ بلاک 13/D میں ایک غیر قانونی کمرشل بلڈنگ کی تعمیر کے حوالے سے بھی ضلعی ڈائریکٹر کو کہا گیا کہ مذکورہ بلڈنگ تعمیر کرے اور بلڈرکو تنگ نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ ناصر حسین شاہ کا دوست ہے۔ اسی طرح فیڈرل بی ایریا بلاک 14 میں مرکزی روڈ پر BS کٹیگری کے پلاٹ پر غیر قانونی چھ منزلہ بلڈنگ کے حوالے سے بھی آغا مقصود عباس دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ صوبائی وزیر بلدیات کے دوست کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ غیر قانونی بلڈنگ کے خلاف ڈائریکٹر ضلع وسطی کوئی ایکشن نہیں لے رہے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس صوبائی وزیر بلدیات کا نام استعمال کرکے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں یونس میمن کے پٹہ سسٹم نے سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑا دیں۔ یونس میمن اور اس کے فرنٹ مین آغا مقصود عباس کی خواہش تھی کہ معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان کے بھائی انجینئر کاشف خان کو بھی پٹہ سسٹم کا حصہ بنایا جائے اور اسے اندرون سندھ کا کنٹرول دے دیا جائے۔ انجینئر کاشف جو کہ فاروق ستارکی متحدہ بحالی تنظیم کا عہدیدار ہے۔ اس کی اندرون سندھ اچھی گرفت ہے۔ انجینئر کاشف خان سندھ کچی آبادی اتھارٹی میں گریڈ 18 کا افسر ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بعض سرکاری افسران کا قریبی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ معطل ایس بی آئی عاصم خان نے انجینئر کاشف خان کو آغا مقصود عباس کے ذریعے یونس میمن کے پٹہ سسٹم میں شامل کرایا۔ جس کے بعد دونوں بھائی آغا مقصود عباس کے قریب آئے اور پھر اسی دوران دونوں بھائیوں نے سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے فرنٹ مین محمد فاروق سے مراسم بڑھالئے۔ جب دونوں بھائیوں کو اندازہ ہوا کہ آغا مقصود عباس سے زیادہ طاقتور محمد فاروق ہے تو انجینئر کاشف خان نے فاروق کی قربت حاصل کی اور دوسرا بھائی عاصم خان آغا مقصود عباس کا فرنٹ مین بن گیا۔ انجینئر کاشف خان جو سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔ اس نے اپنی باتوں سے فاروق کا اعتماد حاصل کیا اور فاروق کے ذریعے یونس میمن سے اندرون سندھ ایس بی سی اے پٹہ پر لے لیا۔ جبکہ عاصم خان آغا مقصود عباس کے ساتھ مل کر کراچی میں بلڈر مافیا سے رقوم بٹورنے میں لگا رہا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس میمن کے پٹہ سسٹم میں رائو انوار کے فرنٹ مین فاروق کا نام تب سامنے آیا۔ جب انجینئر کاشف اور عاصم خان بعض بلڈروں کو سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے نام سے ڈرانے کے لئے فاروق کا نام لینے لگے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ عاصم خان نے فاروق کی ان سے بات بھی کرائی۔ معلوم ہوا ہے کہ فاروق ماضی میں چلنے والے پٹہ سسٹم میں جمشید ٹائون I اور جمیشد ٹائون II کو کنٹرول کرتا تھا۔ اس وقت رائو انوار ایس ایس پی ملیر تھا۔ ذریعے کے مطابق سابق دور میں بھی عاصم خان فاروق کے ساتھ رائو انوار کا نام جوڑ کر بلڈر مافیا کو بلیک میل کرتا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ یونس میمن کے پٹی سسٹم کا نیا نگراں فاروق ان دنوں ڈیفنس میں مقیم ہے اور عاصم خان اور انجینئر کاشف روزانہ کی بنیاد پر فاروق کی رہائش گاہ جاکر حاضری دیتے ہیں۔ جبکہ انجینئر کاشف فاروق کو بچپن کا دوست بتاتا ہے۔
ذریعے کاکہنا ہے کہ فاروق جو کہ یونس میمن کے سسٹم میں گمنام ہوکر سسٹم کے معاملات کنٹرول کر رہا تھا۔ اس کا نام منظر عام پر لانے میں دونوں بھائیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ذریعے کے مطابق فاروق کی ہدایت پر ہی سابق ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو نے سپریم کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انجینئر کاشف کو ڈیپوٹیشن پر ایس بی سی اے میں لے کر اسے اندرون سندھ میں غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کا کنوینر بنادیا۔ اس حوالے سے شمس الدین سومرو نے 30 اپریل 2021ء کو لیٹر نمبر NO.SBCA/DD(ADMIN-P-I)2021/364 نکالا۔ جس میں درج کیا گیا کہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے 18 گریڈ کے افسر انجینئر کاشف خان کو کمیٹی کا کنوینر، جبکہ ایس بی سی اے کے گریڈ 18 کے یونس خان کو سیکریٹری اور گریڈ 17 کے ایس بی سی اے کے عمیر کو ممبر بنایا گیا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے میں گریڈ 18 کے سینئر سول انجینئر موجود ہیں۔ لیکن یونس میمن اور فاروق کے کہنے پر سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انجینئر کاشف خان کو محکمہ کچی آبادی سے ایس بی سی اے میں لایا گیا اور پھر اسے اندرون سندھ میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انکوائری کا ہیڈ بنا دیا۔
معلوم ہوا ہے کہ انجینئر کاشف خان کو ایس بی سی اے میں لائے بغیر بھی پٹہ سسٹم کا حصہ بنایا جاسکتا تھا۔ لیکن انجینئر کاشف نے فاروق اور آغا مقصود عباس کے سامنے شرط رکھی تھی کہ اسے ایس بی سی اے میں کوئی عہدہ دیا جائے۔ تاکہ وہ اندرون سندھ کے بلڈروں سے پٹہ سسٹم کی وصولی آسانی سے کر سکے۔ جس پر انجینئر کاشف خان کو عہدے سے نوازا گیا۔ جو سراسر غیر قانونی تھا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی شمس الدین سومرو کے اس اقدام کے بعد مذکورہ کمیٹی نے یونس میمن پٹہ سسٹم کے لئے کام شروع کیا اور حیدر آباد، قاسم آباد، سکھر ، میرپور خاص، بدین، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں بلڈر مافیا سے غیر قانونی تعمیرات کرنے کے بدلے ان سے بھاری بھتہ وصول کیا۔
’’امت‘‘ کو ایس بی سی اے کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انجینئر کاشف خان نے اندرون سندھ میں بلڈر مافیا کو اتنا تنگ کیا کہ بعض بلڈروں نے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ سے شکایت بھی کی۔ لیکن ناصر حسین شاہ یونس میمن کے سسٹم کے آگے بے بس تھے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس میمن کے پٹہ سسٹم کو دونوں بھائیوں عاصم خان اور انجینئر کاشف خان کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ اس سے قبل بھی ایس بی سی اے کو پٹہ پر لیا جاتا رہا ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ سسٹم کا شور نہ مچے۔ لیکن آغا مقصود عباس اور فاروق نے دونوں بھائیوں کو سارا کنٹرول دے دیا۔ جس سے یونس میمن سسٹم کے معاملات خراب ہوگئے۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان نے نارتھ کراچی کا کنٹرول اپنے پاس رکھا ہے۔ نارتھ کراچی میں وہ معطل افسر عمران رضوی کے ذریعے غیر قانونی تعمیرات کرنے والی بلڈر مافیا سے بھتہ وصول کر رہا ہے۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ نارتھ کراچی سیکٹر 5/A/1 کے پلاٹ نمبر R-131 پر غیر قانونی تعمیرات کی جارہی ہیں۔ اسی طرح پلاٹ نمبر R-114 سیکٹر 5/C/2 پر فلیٹ طرز کی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ پلاٹ نمبر LS-239 سیکٹر 5/B/2 پر غیر قانونی تعمیرات کرائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح پلاٹ نمبر L-277 سیکٹر 5/C/3، پلاٹ نمبر R-108 سیکٹر 5/C/3، پلاٹ نمبر L-837 سیکٹر 5/C/4، پلاٹ نمبر 454 سیکٹر 11/A نارتھ کراچی، پلاٹ نمبر 474 سیکٹر 11/B نارتھ کراچی، پلاٹ نمبر C-54 سیکٹر 11/B نارتھ کراچی میں عاصم خان کی جانب سے بھاری رقوم لے کر غیر قانونی تعمیرات کرائی جارہی ہیں۔
اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ ضلعی وسطی میں عاصم خان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے پٹہ سسٹم کے معاملات اس درجہ کھل کر سامنے آگئے کہ ایس بی سی اے کے افسران کو ضلع وسطی کے ڈائریکٹر محمد رقیب کو تبدیل کرنا پڑا۔ محمد رقیب پٹہ سسٹم کے لئے انتہائی موزوں افسر تھے۔ کیونکہ دیگر ڈائریکٹرز کی طرح ان کا علاقے میں عمل دخل کم تھا اور انہیں غیر قانونی تعمیرات سے جو پیسہ دیا جاتا، وہ بغیر کسی سوال جواب کے لے لیتے تھے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ معطل عاصم خان جس طرح کا حکم دیتا تھا۔ ڈائریکٹر رقیب مان جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ضلعی وسطی میں منظور قادر کاکا اور آغا مقصود عباس سے سفارش کر کے محمد رقیب کو ہی ضلعی ڈائریکر بنایا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ عاصم خان اور اس کے بھائی انجینئر کاشف خان نے یونس خان کے پٹہ سسٹم کو پروان چڑھانے کے لئے بلڈروں کو اس درجہ ٹارچر کیا کہ یونس میمن سسٹم کی آوازیں باہر تک آنے لگیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ضلع وسطی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی اسلم خان نے باقاعدہ طور پر ڈی جی ایس بی سی اے کو تحریری طور پر فیڈرل بی ایریا میں رہائشی پلاٹوں پر ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی تھی۔ جس پر ڈی جی آفس سے مذکورہ کمپلین کی ایک کاپی پٹہ سسٹم کے عاصم خان کو فارورڈ کردی گئی۔ جس پر عاصم خان نے اس وقت گلبرگ میں تعینات اسسٹنٹ ڈائریکٹر کاشف سومرو کو مذکورہ درخواست دے کر بلڈروں کو مزید ہراساں کیا اور بھاری رقوم وصول کیں۔ معلوم ہوا ہے کہ گلبرگ ٹائون کے علاوہ فیڈرل بی ایریا بلاک 2 میں غیر قانونی تعمیرات میں ملوث بدنام بلڈر آصف عرف ’آصف ViP‘ کو عاصم خان نے خصوصی طور پر چھوٹ دے رکھی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آصف VIP بلڈر خود کو بعض سرکاری اداروں کا مخبر ظاہر کرتا ہے۔ گلبرگ ٹائون میں فیڈرل بی ایریا بلاک 2 میں پلاٹ نمبر R-1844، بلاک 2 میں پلاٹ نمبر R-1303، بلاک 2 کے پلاٹ نمبر R-821، پر اس کی غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ فیڈرل بی ایریا میں بلڈر مافیا کے انویسٹر مبشر میمن کی غیر قانونی تعمیرات کو بھی کھلے عام تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو فیڈرل بی ایریا بلاک 14 کے ایک بلڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نے رمضان المبارک میں دو غیر قانونی تیسرے فلور ڈالے ہیں اور اس نے کاشف سومرو کے ذریعے عاصم خان سے خود ڈیل کی تھی اور ایک غیر قانونی فلور کے 12 لاکھ اور دوسرے غیر قانونی فلور کے 8 لاکھ روپے دیئے تھے۔