وجیہ احمد صدیقی:
امریکہ 2001ء سے 2020ء تک تقریباً 978 ارب ڈالر (9 کھرب78 ارب ڈالر) سے زائد افغان جنگ میں جھونک چکا ہے۔ 2021ء کا حساب سامنے آنے کے بعد اس رقم میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
امریکی کانگریس میں پنٹاگون کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں 2018ء میں جنگ کا سالانہ خرچ 45 ارب ڈالر بتایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2001ء سے ستمبر 2019ء تک 778 ارب ڈالر تک اخراجات پہنچ گئے تھے۔ افغانستان میں امریکی جنگ کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں لیکن سب ہی کھربوں ڈالر میں ہیں اور سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ محض ایک اندازہ ہے۔ اصل اخراجات اس سے زیادہ تو ہوسکتے ہیں کم نہیں ہوسکتے۔
امریکی جریدے ’’ملٹری ٹائمز‘‘ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں صرف جنگ پر 9 کھرب (ٹریلین) ڈالر جھونک کر 2 لاکھ 40 ہزار لاشیں حاصل کی ہیں۔ (یہ اس جنگ میں ہونے والا مجموعی انسانی جانوں کا نقصان ہے)۔ ملٹری ٹائمز کہتا ہے کہ افغان جنگ میں شریک سابق فوجیوں کی دیکھ بھال کے پروجیکٹ پر اخراجات کا اندازہ 300 ارب ڈالر (یعنی 3 کھرب ڈالر) لگایا گیا ہے۔ 2002ء میں امریکی افواج کی تعداد افغانستان میں ایک لاکھ 20 ہزار تھی۔ 2019ء میں یہ گھٹ کر 10 ہزار رہ گئی۔ گزشتہ سال دسمبر میں ان کی تعداد 4 ہزار رہ گئی تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی حکومت کا منصوبہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بعد بھی 650 امریکی فوجی افغانستان میں اپنے سفارت کاروں کی حفاظت کے لیے موجود رہیں گے۔ جبکہ طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک بھی غیر ملکی فوجی افغانستان کی سرزمین پر برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے سفارت کاروں کی حفاظت کے لیے موجود سپاہیوں کی تعداد بھی سفارتی معاہدوں کے مطابق ہی رہے گی۔ گویا اگر ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہا تو یہ جنگ جاری رہے گی۔
امریکی کانگریس میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی سفارت خانے میں عملے کے علاوہ پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز (بلیک واٹر طرز کے) بڑی تعداد میں ہوں گے ان کے علاوہ 7 ہزار 8 سو امریکی شہری بھی افغانستان میں رہیں گے۔
واضح رہے کہ امریکی سفارت خانہ اسلام آباد دنیا میں سب سے بڑا سفارت خانہ ہے جہاں 3000 سے زائد افراد کی رہائش کی گنجائش ہے، جن میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں)۔ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ اس لیے کیا تھا کہ افغانیوں کو افغانیوں سے ہی آزادی دلا سکے۔ اسی لیے اس نے اپنے اس مشن کا نام ’’آپریشن اینڈورینگ فریڈم‘‘ رکھا تھا یعنی آزادی کے استحکام کے لیے آپریشن، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے افغانستان میں اپنی غلام حکومت قائم کرڈالی۔ اب جبکہ وہ وہا ں سے واپس آرہا ہے تو 20 سال تک افغان جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کی پنشن کے لیے اسے 3 کھرب ڈالر کا انتظام کرنا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو ’’کاسٹ آف وار پروجیکٹ‘‘ کی رپورٹ جاری ہوئی۔ جس کے مطابق امریکی وزارت دفاع کے بجٹ کی 9 کھرب 33 ارب ڈالر کی رقم میں سے زیادہ تر سمندر پار سرگرمیوں میں خرچ ہوتی ہے۔4 کھرب 43 ارب ڈالر کی رقم جنگ پر، 2 کھرب 96 ارب ڈالر (تقریباً 3 کھرب ڈالر) جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہوتے ہیں۔ 5 کھرب 30 ارب ڈالر گزشتہ 20 سال میں جنگ کے لیے قرض کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع افغانستان میں 900 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرچکی ہے۔
’’کاسٹ آف وار پروجیکٹ‘‘ کی مرکزی محقق نیٹا کرافورڈکا کہنا یہ ہے کہ یہ 9 کھرب ڈالر تو محض آئس برگ کی چوٹی ہیں۔ افغان جنگ کے منفی نتائج اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ’’کاسٹ آف وار پروجیکٹ‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے تقریباً 2 لاکھ 41 ہزار افراد کی جانیں گئیں۔ ان میں 2 ہزار 400 امریکی فوجی تھے، 71ہزار 344 سویلین تھے۔78ہزار 314 افغان فوج اور پولیس کے لوگ تھے۔ 84 ہزار 191 افراد دشمن فوج کے تھے۔ ان اعداد و شمار میں حادثات اور بیماریوں سے مرنے والوں کو شامل نہیں کیا گیا۔