٭…قربانی کرنے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ بقر عید کی نماز کے بعد قربانی کرکے حجامت بنوائے، قربانی نہ کرنے والے کیلیے مستحب نہیں۔ البتہ قربانی کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کی صورت میں ثواب سے محروم نہیں ہو گا۔
٭…حلال جانور کے بھی سات اجزا حرام ہیں، ان کا کھانا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں:٭ دم مسفوح یعنی بہنے والا خون٭ پیشاب کی جگہ (نرو مادہ کی)٭ خصیے (فوطے) ٭ پاخانے کی جگہ٭ غدود (سخت گوشت)٭ مثانہ (پیشاب کی تھیلی)٭ پِتا۔کنز اور طحطاوی میں حرام مغز کو بھی حرام لکھا اور وہ دودھ کی طرح سفید ڈوری ہے جو پیٹھ کی ہڈی کے اندر کمر سے لے کر گردن تک ہوتی ہے، اس کو حرام مغز کہتے ہیں۔
٭… جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہے، اس کی قربانی صحیح ہے، البتہ جان بوجھ کر ولادت کے قریب جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے، ذبح کے بعد جو بچہ پیٹ سے نکلے، اس کو ذبح کر لیا جائے، اس کا کھانا حلال ہے اور اگر وہ مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اور اگر ذبح سے پہلے مر گیا تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔اور اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے بچہ کو ذبح نہیں کیا، یہاں تک کہ قربانی کے دن گزر گئے تو اس زندہ بچہ کو صدقہ کردیا جائے اور اگر قربانی کے دن گزرنے کے بعد ذبح کرکے کھا لیا تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہو گا۔اور اگر بچہ کو پال لیا اور بڑے ہونے کے بعد قربانی کردی تو اس کی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی، اور اس کا پورا گوشت صدقہ کرنا واجب ہوگا، اگر اس آدمی پر قربانی واجب ہے تو اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی لازم ہوگی۔
٭… بڑے جانور: گائے، بھینس، بیل اور اونٹ، اور اونٹنی میں سات حصے ہیں، لہٰذا کسی بھی بڑے جانور میں سات افراد شریک ہو کر سات حصے قربانی کر سکتے ہیں، البتہ یہ شرط ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو اور سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کرنے کی ہو، گوشت کھانے یا لوگوں کو دکھانے کی نیت نہ ہو اور اگر کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے تو قربانی درست نہیں ہوگی اور ساتویں حصے سے کم ہونے کی صورت یہ ہے کہ ایک جانور میں سات سے زائد افراد شریک ہوجائیں، مثلاً ایک بڑے جانور میں آٹھ افراد شامل ہو جائیں تو ہر شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا اور کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی یا کسی شریک نے ایک حصہ سے کم آدھا یا تہائی وغیرہ لیا ہے، تب بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
٭…خارش والے جانور کی قربانی درست ہے، لیکن اگر خارش کی وجہ سے بالکل کمزور ہوگیا ہو یا خارش کھال سے گزر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
٭…اگر بڑے جانور میں متعدد افراد شامل ہیں تو ہر فرد کو اپنے حصے کے مطابق پیسہ دیدینا چاہئے، تاہم اگر کوئی شریک خوشی سے دوسرے کی طرف سے کوئی پیسہ زیادہ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
٭…کسی جانور کی خریداری کے وقت کسی کو شریک کرنے کی نیت کی ہے یا نہیں کی، دونوں صورتوں میں اگر خریدار مالدار ہے تو دوسرے لوگوں کو شریک کرسکتا ہے اور اگر خریدار مالدار نہیں، بلکہ غریب ہے، تو اس صورت میں اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت تھی تو دوسرے آدمی کو شریک کر سکتا ہے اور اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت نہیں تھی تو خرید نے کے بعد کسی اور آدمی کو شریک نہیں کرسکتا۔
٭…بیوی کی طرف سے قربانی کرنا شوہر پر لازم نہیں، البتہ شوہر بیوی کی اجازت سے اس کی قربانی کرسکتا ہے۔
٭…اگر بھیڑ، بکری اور دنبی کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں، کیونکہ یہ عیب دار جانور ہے اور عیب دار جانور کی قربانی کرنے سے قربانی درست نہیں ہوتی۔ اگر بھینس، گائے، اونٹنی وغیرہ کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں۔ اونٹنی، گائے، بھینس کے اندر ایک تھن خشک ہو جانے پر تو قربانی جائز ہوتی ہے، لیکن دو تھن خشک ہو جائیں یا کٹ جائیں تو قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کا تھن کٹا ہوا ہو یا اس طرح زخمی ہو کہ بچہ کو دودھ نہ پلا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں، اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کا تھن ہی نہیں، اس کی قربانی درست نہیں۔