٭…اگر کسی جانور کو جلدی بیماری ہے، اور اس کا اثر گوشت تک نہیں پہنچا تو اس کی قربانی درست ہے، اگر بیماری اور زخم کا اثر گوشت تک پہنچا ہو تو اس کی قربانی صحیح۔
٭…قربانی کے جانور کی جھول صدقہ کردینا مستحب ہے، اور اگر فروخت کردی تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے۔
٭… اگر حاجی مسافر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر حاجی اپنی خوشی سے قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا۔ اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا لازم ہوگا۔ حج قران اور حج تمتع کرنے کی صورت میں دم شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں اس لئے دونوں کو ایک سمجھنا صحیح نہیں۔ اگر اہل مکہ ( مکہ والے) صاحب نصاب ہیں تو حج کرنے کی صورت میں بھی ان پر قربانی لازم ہے۔
٭…قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ بقر عید کی نماز کے بعد قربانی کرکے حجامت بنوائے، قربانی نہ کرنے والے کیلئے مستحب نہیں۔ البتہ قربانی کرنے والوں کیساتھ مشابہت اختیار کرنے کی صورت میں ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔
٭…اگر حرام زادہ مسلمان ہے تو اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔
٭…زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹنا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا ذبح کے بعد جانور جب تک ٹھنڈا نہ ہوجائے، تب تک اس کا کوئی عضو الگ نہ کیا جائے، ورنہ وہ عضو کھانا جائز نہیں ہوگا۔
٭…جانور ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کا سر الگ کرنا مکروہ ہے، مگر ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت حلال ہے۔
٭…جان بوجھ کر سود خور کے ساتھ قربانی میں شرکت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ حرام رقم سے شرکت کرنے کی صورت میںکسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ایسا آدمی کسی سے حلال رقم لے کر قربانی میں حصہ ڈالے گا تو اس کو اجتماعی قربانی میں شامل کرنا جائز ہوگا۔
٭…اگر کسی جانور کے بچہ کی پرورش سور کے دودھ سے ہوئی، وہ بچہ حلال ہے، اس کی قربانی درست ہے، لیکن قربانی کرنے سے پہلے چند روز تک دوسرا چارہ دینا چاہیے۔
٭…جس جانور کے پیدائش سے سینگ نہیں یا سینگ تو تھے مگر ٹوٹ گئے، اس کی قربانی درست ہے، البتہ اگر سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں تو قربانی درست نہیں ہے۔ اگر سینگ کے اوپر کا خول اتر گیا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ اگر سینگ اکھڑ گئے ہوں اور چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
٭…اگر کسی نے شادی کی دعوت نمٹانے کی نیت سے قربانی کی، ثواب اور واجب ادا کرنے کی نیت سے نہیں، تو اس صورت میں قربانی صحیح نہیں ہوگی، دوبارہ ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہوگا۔
٭…اگر شرکا میں سے کسی ایک شریک نے جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں دی اور وکیل بھی مقرر نہیں کیا اور دوسرے نے خود جانور کو ذبح کردیا اور کچھ شرکا کو خبر بھی نہیں تو اس سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔
٭…قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا، جس پر قربانی واجب تھی اور وہ پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہوگیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا، تو قربانی ہوجائے گی۔ قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب نہ تھی، وہ اگر ذبح کرنے سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہ جائے گی اور اس جانور کے شرکا کی قربانی بھی درست نہ ہوگی۔
٭…اگر بڑے جانور میں متعدد افراد شامل ہیں تو ہر فرد کو اپنے حصے کے مطابق پیسہ دیدینا چاہئے، تاہم اگر کوئی شریک خوشی سے دوسرے کی طرف سے کوئی پیسہ زیادہ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
٭…کسی جانور کی خریداری کے وقت کسی کو شریک کرنے کی نیت کی ہے یا نہیں کی، دونوں صورتوں میں اگر خریدار مالدار ہے تو دوسرے لوگوں کو شریک کرسکتا ہے اور اگر خریدار مالدار نہیں، بلکہ فقیر ہے، تو اس صورت میں اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت تھی تو دوسرے آدمی کو شریک کر سکتا ہے اور اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت نہیں تھی تو خرید نے کے بعد کسی اور آدمی کو شریک نہیں کرسکتا۔
٭…بیوی کی طرف سے قربانی کرنا شوہر پر لازم نہیں، البتہ شوہر بیوی کی اجازت سے اس کی قربانی کرسکتا ہے۔