احمد نجیب زادے:
فرانسیسی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے سعودی شہزادے فیصل بن ترکی بن عبداللہ اوران کی بیوی کیخلاف ’’جدید غلامی‘‘ کے الزامات کی تفتیش شروع کردی۔ اس تفتیش کیلیے فرانسیسی حکومت کی معاون ایک این جی او کا خصوصی کردار ہے۔ جس کو فیصل بن ترکی بن عبد اللہ کی سات فلپائنی ملازمائوں نے شکایات کا پلندہ تحریری طور پر حوالہ کیا تھا۔
مقامی جریدے ’’لا پارسیان‘‘ کا کہنا ہے کہ پبلک پراسیکیوٹر سٹی نانتیرے بھی اس تفتیش میں معاونت کر رہے ہیں۔ فرانسیسی حکام کا دعویٰ ہے کہ سعودی شہزادے کیخلاف ’’بردہ فروشی‘‘ کی تحقیقات بھی کی جارہی ہیں۔ فلپائنی ملازمائوں کا کیس لڑنے والی تنظیم Esclaves کی چیئر پرسن اینک فوگیرس کا کہنا ہے کہ شہزادے کے بچوں کو اجازت تھی کہ ملازمائوں پر تشدد کریں، جس میں ایک معمولی سزا ان کے چہروں پر تھوکنا بھی تھا۔ جبکہ ملازمائوں کو حکم تھا کہ جب شہزادہ فیصل بن ترکی ان کے سامنے آئیں تو احترا م میں سر کو جھکا لیا جائے۔
’’البوابہ‘‘ جریدے کا کہنا ہے کہ شہزادہ فیصل اور ان کی اہلیہ کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹس ہیں۔ پولیس اور پراسکیوٹرز کا کہنا ہے کہ جب تک شہزادہ اور ان کی اہلیہ فرانس واپس نہیں آتے، اس وقت تک ان کیخلاف تفتیش منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی۔ کیونکہ تفتیش کیلئے شہزادے اور اہلیہ کی پولیس اسٹیشن میں جسمانی حاضری ضروری ہے۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فلپائنی ملازمائوں کا کہنا تھاکہ ایک مرتبہ شہزادے کے بچوں کو پارک میں لے جایا گیا، جہاں انہوں نے آئسکریم کی فرمائش کی جو انہوں نے فوری طور پر پوری کردی۔ لیکن گھر آکر جب ایک بچے کے پیٹ میں درد شروع ہوا تو سارا ملبہ ہم پر گرادیا گیا اور ہم پر زبانی و جسمانی تشدد کیا گیا۔
برطانوی خاتون صحافی لورین لیوس نے لکھا ہے کہ پیرس پولیس کی جانب سے ’’جدید غلامی‘‘ اور ’’بردہ فروشی‘‘ کی تحقیقات کے اعلان پر سعودی سفارت خانہ، پیرس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی سعودی شاہزادہ فیصل بن ترکی نے کوئی بیان دیا ہے۔ جبکہ فرانسیسی سفارتی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی شہزادے اور ان کی اہلیہ کے پاس سفارتی پاسپورٹس موجود ہیں۔ اس لئے بادی النظر میں پیرس پولیس ان کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ ان کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔
پیرس پولیس اور فرانسیسی تنظیم Esclaves کا کہنا ہے کہ ان کو ملی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ پیرس میں مقیم شہزادہ فیصل اور ان کی اہلیہ اپنے چاروں بچوں کے ساتھ سعودی عرب واپس جاچکے ہیں اور ان کامستقبل قریب میں واپس آنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیتا۔ پیرس پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ساتوں ملازمائوں کے الگ الگ بیانات ریکارڈ کا حصہ بنالئے ہیں اور مزید تفتیش کی جارہی ہے۔ اپنی شکایات میں ان گھریلو ملازمائو ں نے، جن کی عمریں 38 سے54 برس ہیں، الزا م عائد کیا ہے کہ سعودی شہزادہ اور ان کی اہلیہ ان کو جانور اور غلام سمجھتے ہیں اور محض300 یورو کے عوض ان سے بیس، بیس گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ انہیں کھانے کیلیے بچا کھچا کھانا دیا جاتا ہے۔ اگر کسی قسم کی غلطی ہوجائے تو طمانچے بھی کھانے پڑتے ہیں۔
فرانسیسی میڈیا کا کہنا ہے کہ پیرس کے مہنگے علاقہ میں موجود سعودی شہزادے کے محل نما اپارٹمنٹ سے یہ سات فلپائنی خواتین گزشتہ ماہ بھاگ نکلی تھیں اور انہوں نے فرانسیسی این جی او سے پناہ اور قانونی امداد طلب کی تھی۔ برطانوی جریدے ’’دی ٹائمز‘‘کے مطابق اگرچہ سعودی شہزادے کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کے بعد رپورٹ حکومت فرانس اور اعلیٰ عدلیہ کو سونپ دی جائے گی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی شہزادے کیخلاف اپنے گھر میں ملازم خواتین کو غلام بنا کر رکھنے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے، ان پر تشدد اور کم تنخواہیں دینے کا الزام ہے۔
فرانسیسی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فلپائنی سفیر نے ان متاثرہ خواتین تک سفارتی رسائی حاصل کرلی ہے اور ان کے کیس کو سنا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ فرانسیسی تنظیم Esclaves نے بتایا ہے کہ فلپائنی خواتین نے ان کے مقامی دفتر میں آکر مدد طلب کی اور بتایا کہ ان کو سعودی عرب میں بھرتی کیا گیا تھا۔ وہاں وہ شاہی محل میں مقیم تھیں لیکن گھریلو خدمات گار ی اورچار بچوں کی دیکھ ریکھ کیلئے ان کو فرانس لایا جاتا تھا، جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔
فلپائنی ملازمائوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں غلام بنا کر رکھی گئی تھیں۔ سعودی شہزادہ فیصل بن ترکی اور ان کی اہلیہ رات تین بجے تک کام لیتے تھے اور سونے نہیں دیتے تھے اور صبح سات بجے ان کا ایک منتظم ملازم ، ان کو جگانے اور دوبارہ کام کی انجام دہی کیلئے اٹھا دیتا تھا جس سے ان کی نیند پوری نہیں ہوتی تھی اور ان کی نفسیات اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے تھے۔