٭… اگر بھیڑ، بکری اور دنبی کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں، کیونکہ یہ عیب دار جانور ہے، اور عیب دار جانور کی قربانی کرنے سے قربانی درست نہیں ہوتی۔ اگر بھینس، گائے، اونٹنی وغیرہ کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں۔ اونٹنی، گائے، بھینس کے اندر ایک تھن خشک ہوجانے پر تو قربانی جائز ہوتی ہے، لیکن وہ تھن خشک ہوجائیں یا کٹ جائیں تو قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کا تھن کٹا ہوا ہو یا اس طرح زخمی ہو کہ بچہ کو دودھ نہ پلا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کا تھن نہیں، اس کی قربانی درست نہیں۔
٭…دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک جس طرح دن میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، اسی طرح رات کو بھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر جگہ تقریباً بجلی ہے، روشنی اتنی زیادہ ہے کہ کسی رگ کٹنے میں کوئی شبہ نہیں رہ سکتا۔
٭…قربانی کے جانور کی رسی صدقہ کردینا مستحب ہے اور اگر فروخت کردی تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے اور اگر رسی خود استعمال کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اوراگر کسی کو ہدیہ میں دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
٭…جس آدمی پر قربانی واجب ہے، اگر وہ قربانی کے لئے رقم کسی اور ملک میں بھیج دے اور کسی کو قربانی کرنے کے لئے کہہ دے، تو اس طرح رقم بھیج کر دوسرے ممالک میں قربانی کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو یعنی جس دن قربانی کی جائے گی وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ مثلاً سعودی عرب میں پاکستان کے حساب سے ایک دن پہلے قربانی شروع ہوتی ہے اور پاکستان میں سعودی عرب سے ایک دن بعد، تو سعودی عرب میں رہنے والے آدمی کی قربانی پاکستان میں پہلے اور دوسرے دن کرنا صحیح ہوگا تیسرے دن نہیں، کیونکہ پاکستان کا تیسرا دن سعودی عرب کے حساب سے قربانی کا دن نہیں، اس طرح اگر پاکستان میں رہنے والے آدمی کی قربانی سعودی عرب میں کی جارہی ہے تو سعودی عرب کے پہلے دن میں پاکستان کے آدمی کی قربانی کرنا صحیح نہیںہوگا، کیونکہ یہ دن پاکستان کے حساب سے پاکستان میں رہنے والوں کے لئے قربانی کا دن نہیں ہے، لہٰذا دوسرے اور تیسرے دن میں کی جائے۔
٭…ذبح کرتے وقت جانور کے گلے کو یہاں تک کاٹے کہ چار رگیں کٹ جائیں جو نرخرے کے داہنے اور بائیں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے تین ہی کٹ گئیں، تب بھی ذبح درست ہے اور اس کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو جانور مردار اور اس کا کھانا حرام ہے اور اگر بھول جائے تو کھانا درست ہے۔
٭…جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ گھاس وغیرہ نہ کھا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔
٭…اگر جانور کو مارنے سے اس کے بدن پر زخم ہو گیا تو اس کی قربانی درست ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی نہ کرے۔
٭…اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلے تو اس کو ذبح کردیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کو استعمال میں لانا جائز نہیں اور اگر اس کو قربانی کے ایام میں ذبح نہیں کیا تو قربانی کے ایام گزرنے کے بعد صدقہ کردیا جائے اور اگر آئندہ سال اس بچے کی قربانی کی تو واجب قربانی ادا نہیں ہوگی اور ذبح کئے ہوئے جانور کے بچے کو صدقہ کردینا ضروری ہے، اگر ذبح کرنے کی وجہ سے قیمت میںکمی آتی ہے تو اتنی قیمت کے برابر رقم بھی صدقہ کردینا ضروری ہے اور اس کی جگہ پر دوسرے جانور کی قربانی لازم ہوگی۔ اگر قربانی ہونے سے قبل ہی جانور نے بچہ جنم دیا تو اس بچہ کا بھی یہی حکم ہے۔
٭…زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹنا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا ذبح کے بعد جانور جب تک ٹھنڈا نہ ہوجائے، تب تک اس کا کوئی عضو الگ نہ کیا جائے، ورنہ وہ عضو کھانا جائز نہیں ہوگا۔