احمد نجیب زادے:
خلائی اسٹیشنوں پر موجود امریکی و عالمی خلانوردوں کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جتنے دن تک برداشت کرسکیں، میلے کپڑے پہن کر رکھیں۔ اور جب ان کی بدبو ناقابل برداشت ہوجائے، تب ہی ان کو اُتارا جائے۔ ان میلے کپڑوں کو بنڈل بناکر خلائی کیپسول میں رکھ کر واپس زمین کے مدار میں بھیجا جاتا رہا ہے، جہاں وہ جل جاتے تھے۔ جبکہ خلانوردوں کیلیے نئے کپڑے راکٹس میں بھر کر خلائی اسٹیشن پر بھیجے جاتے ہیں، جو ایک محنت طلب اور کافی خرچے والا کام ہے۔ لیکن اب خلائی تحقیق کے امریکی ادارے’’ ناسا‘‘ نے اس مشکل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔
’’ناسا‘‘ نے مشہور عالمی کمپنی ’’پراکٹر اینڈ گیمبل‘‘ کے ساتھ مل کر اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال کے اختتام تک خلا میں کپڑوں کی دھلائی کیلئے ’’ٹائیڈ’’ نامی واشنگ پائونڈر خلا میں بھیج رہی ہے۔ پی اینڈ جی کمپنی اپنے ابتدائی تجربے کیلئے خلا میں استعمال کرنے کیلئے خصوصی طور پر تیار کیا جانیوالا ڈٹرجنٹ بھجوائے گی۔ جس کے بعد سائنس دان چھ ماہ کے دوران بے وزنی کی حالت میں انزائمز اور ڈٹرجنٹ میں شامل دیگر اجزا کے ردِّعمل اور کپڑوں کی صفائی کا جائزہ لے سکیں گے۔
پراکٹر اینڈ گیمبل اور ناسا حکام کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلہ میں داغ دھبے مٹانے والے ریموول پین اور وائپس تجربے کیلئے خلا نوردوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ ناسا حکام کا کہنا ہے کہ پی اینڈ جی کپڑے دھونے اور سکھانے کی مشین پر بھی کام کر رہی ہے جو چاند اور مریخ پر بھی قابل استعمال ہوگی۔ اس مشین میں پانی اور ڈٹرجنٹ کی برائے نام مقدار استعمال ہوگی اور یہ مشین زمین پر ایسے خطوں میں استعمال کیلئے بھی کارآمد ہوگی جہاں پانی آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہوتا۔ ناسا کے مطابق خلا میں ساز و سامان لے جانیوالے راکٹس بہت تنگ ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے سامان کی ترسیل مہنگی بھی پڑتی ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ خلانوردوں کے میلے اورگندے کپڑوں کو وہیں خلائی اسٹیشن پر صاف اور خوشبودار رکھنے کا کوئی انتظام کردیا جائے۔
پراکٹر اینڈ گیمبل کمپنی کے ماہر مارک سوک کا کہنا ہے کہ ایک خلانورد کو سالانہ 68 کلو کپڑے درکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں تین سال کے مریخ مشن میں ان کپڑوں کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ خلائی اسٹیشن پرچونکہ کشش ثقل نہیں ہوتی اور وہاں رہنے والے خلانورد بے وزنی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں ہڈیوں اور پٹھوں کے مسائل کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔
’’ناسا ‘‘کے ایک سابق خلانورد لیلینڈ میلون کہتے ہیں کہ ان مسائل سے بچنے کیلئے خلانوردوں کو روزانہ دو گھنٹے ورزش کرنا پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے کپڑے پسینے سے تربتر ہو جاتے ہیںاور ان میں بدبو بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ میلون کا ماننا ہے کہ یہ میلے کپڑے زہریلے ہوجاتے ہیں، جس سے خلانوردوں کی عمومی صحت کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ناسا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے دیگر شراکت دار خلا میں زیادہ عرصے تک قابل استعمال رکھنے والے اینٹی مائیکروبیل کپڑے تیار کرنے پر بھی کام کر رہے تھے۔ لیکن تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ بھی اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے۔ ناسا کی تیار کی جانے والی اس مشین کے ڈیزائن میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کیوں کہ سائنسدانوں کے مطابق خلا میں کپڑوں کی دھلائی کے بعد اس پانی کو پینے اور کھانا پکانے کیلیے بھی قابل استعمال بنانا ہوگا۔
ناسا اور پراکٹر اینڈ گیمبل نے ایک نئے معاہدہ پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق دنیا کے پہلے خلائی واشنگ پاؤڈر کی آزمائش اگلے سال سے عالمی خلائی اسٹیشن میں شروع کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن کے بے وزن ماحول میں کئی ایسے کام انتہائی مشکل بن جاتے ہیں جو زمین پر ہمارے لئے روزمرہ کا معمول ہیں۔ ناسا کے مطابق ایک خلانورد کے کپڑوں پر آنے والا مجموعی سالانہ خرچ 16 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ جبکہ اگر معاملہ چاند یا مریخ پر انسانی بستیوں کے بسانے اور رہائش کاہوا تو صرف کپڑوں کی دھلائی کی مد میں سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ اسی خیال کے تحت ایسے خلائی واشنگ پائوڈر تیار کیے جارہے ہیں جو خلا کے بے وزن ماحول میں بھی کپڑے دھونے کا کام موثر طور پر کرسکیں گے۔ عوامی آسانی کیلئے اس خاص ڈٹرجنٹ کو ’’خلائی واشنگ پاؤڈر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔