’’بلاول بھٹو کے نام پر غیرقانونی تعمیرات سے 25 کروڑ روپے وصول‘‘

امت تحقیقاتی ٹیم:
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پٹہ سسٹم پر لینے والے یونس میمن کے فرنٹ مین فاروق نے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں بلاول بھٹو کو بھتہ دینے کے نام پر 20 رہائشی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کرکے 25 کروڑ روپے جمع کر لیے۔

سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے دست راست محمد فاروق نے جمشید ٹائون II کا پوش علاقہ اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں فاروق کے معاملات ایس بی سی اے کا بلڈنگ انسپکٹر عمران تالپور دیکھ رہا ہے۔ سابق ڈی جی شمس الدین سومرو اور فاروق میں قریبی مراسم تھے۔ لیکن نئے ڈی جی ایس بی سی اے سلیم رضا اور یونس میمن کے پٹہ سسٹم کے معاملات طے نہیں ہو سکے۔ جس کی وجہ سے آغا مقصود عباس اور فاروق پر یونس میمن کا سخت دبائو ہے کہ معاملات جلد از جلد سیدھے کیے جائیں۔ نئے ڈی جی سلیم رضا کی جانب سے آغا مقصود کے احکامات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق کراچی کے پوش علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں یونس میمن کے پٹہ سسٹم نے بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات شروع کرا دی ہیں۔ ماضی میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں پورشن اور ٹائون ہائوسز کی غیر قانونی تعمیرات کرانا کسی بھی افسر کے لیے سب سے مشکل ٹاسک ہوتا تھا۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس میمن نے جب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پٹہ پر لیا۔ ان کے فرنٹ مین محمد فاروق نے جمشید ٹائون II کے پوش علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 اور بلاک 2 کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ محمد فاروق نے یونس میمن کو یقین دہانی کرائی کہ جو کام ایس بی سی اے کے چیمپئن افسران نہیں کر سکے، وہ کر کے دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ فاروق نے جمشید ٹائون II کے دو پوش بلاک اپنے کنٹرول میں رکھے اور آغا مقصود عباس کو بھی ہدایت کی کہ وہ جمشید ٹائون II کے معاملات سے دور رہے۔

ایس بی سی اے کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ یونس میمن کے پٹہ سسٹم میں آنے کے لیے جب معطل ایس بی آئی عاصم خان نے بعض ذرائع سے آغا مقصود عباس پر دبائو ڈلوایا تو آغا مقصود عباس کو کہا گیا کہ عاصم خان کو جمشید ٹائون II میں لگایا جائے۔ جس پر آغا مقصود عباس نے عاصم خان کو جمشید ٹائون II دینے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ٹائون سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے دست راست محمد فاروق خود دیکھیں گے۔ کیونکہ انہیں بلاول ہائوس کی آشیرباد حاصل ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ محمد فاروق ماضی میں جمشید ٹائون II کو پٹہ پر لے کر غیرقانونی تعمیرات کراتا رہا ہے۔ لیکن اس دور میں بھی وہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں صرف 2 غیر قانونی تعمیرات کراسکا تھا۔ جس کے بعد فاروق نے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 2 میں اپنی توجہ مرکوز کرکے وہاں غیر قانونی تعمیرات کرائیں۔ یونس میمن کے سسٹم لینے کے بعد رائو انوار کے ذریعے وہ یونس میمن سسٹم کا اہم کردار بنا اور اس نے جمشید ٹائون II کا کنٹرول خود لے کر پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں غیرقانونی تعمیرات کرانا شروع کیں۔ اس دوران ایس بی سی اے افسران اور پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں غیر قانونی تعمیرات کی اعلیٰ حکام سے شکایات کرنے والوں کو کہا گیا کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات بلاول بھٹو زرداری کی آشیرباد سے کرائی جارہی ہیں۔

اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 کے پلاٹ نمبر 39-V پر غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے سابق ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو کو شکایت کی گئی۔ جس پر شمس الدین سومرو نے یونس میمن کے پٹہ سسٹم کو پیغام بھجوایا کہ انہیں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 سے مذکورہ پلاٹ کے حوالے سے شکایت آرہی ہے۔ آپ لوگ معاملے کو دیکھیں۔ جس پر فاروق نے شکایت کرنے والوں کو پیغام بھجوایا کہ مذکورہ غیر قانونی تعمیرات کرانے کے لیے بلاول بھٹو کی جانب سے دبائو ہے۔ جس پر شکایت کرنے والے خاموش ہو گئے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 میں فاروق نے بلڈنگ انسپکٹر عمران تالپور کو ساری ذمے داری سونپی ہوئی ہے۔ عمران تالپور ہی بلڈر مافیا سے معاملات طے کرتا ہے اور بلڈر مافیا سے بھتہ وصول کرتا ہے۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں ہونے والی غیرقانونی تعمیرات کی شکایت کرنے والوں کو مختلف ذرائع سے دھمکایا بھی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری نامی این جی او سے لے کر دیگر کسی این جی او کی جانب سے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ’’امت‘‘ کو علاقہ مکین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہری تنظیم کو پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 کی غیرقانونی تعمیرات کیوں نظر نہیں آرہی ہیں۔ بلڈر مافیا سوسائٹی کا انفرا اسٹرکچر تباہ کررہی ہے۔ لیکن کوئی این جی او آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے مافیا نے ان این جی اوز کو بھی خرید لیا ہے۔

’’امت‘‘ کو پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 کے رہائشی عبدالحفیظ نے بتایا کہ وہ 26 سال سے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں رہائش پذیر ہیں۔ یہاں پر چھ ماہ میں بڑے پیمانے پر غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں۔ عبدالحفیظ کا کہنا تھا کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 اور ہل پارک کا علاقہ شہری نامی این جی او کا خصوصی ہدف رہا ہے۔ یہاں ان کے کارندے شکاری کتوںکی طرح بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نسلہ ٹاور کی 70 گز کی زمین پر شور برپا کرنے والی شیری تنظیم بلاک 6 میں درجنوں غیرقانونی تعمیرات کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یا تو کسی نے ہڈی ڈال دی ہے یا منہ پر زنجیر باندھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی سنگین اور غیرقانونی تعمیرات پر یہ تنظیم خاموش بیٹھی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہری تنظیم کو خاص طور پر مساجد سے کد ہے۔ یہ چن چن کر 35 سال پرانی مساجد کو نشانہ بناتی ہے۔ لیکن آپ دیکھ لیں کہ بلاک 6 میں ہر طرف غیرقانونی تعمیرات کا جنگل اگ آیا ہے۔ لیکن شہری تنظیم غائب ہے۔ اس کا مطلب کیا نکلتا ہے آپ خود سمجھ لیں؟

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق یونس میمن پٹہ سسٹم کے فرنٹ میں محمد فاروق نے بلڈنگ انسپکٹر عمران تالپور کے ذریعے پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 میں 20 سے زائد غیر قانونی تعمیرات کرا کے 25 کروڑ روپے بلڈر مافیا سے وصول کیے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں جن پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات جاری ہیں۔ ان میں پلاٹ نمبر 30-V بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 40-z-4 بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 39-L بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 40-N بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 35-N بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 38-P بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 32-F بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-N بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-H بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 32-2-C بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-2-D بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-2-G بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-3-F بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-7-A بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 50-F بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 43-E بلاک 6۔ پلاٹ نمبر 45-N بلاک نمبر 6۔ پلاٹ نمبر 51-D بلاک 6۔ اور پلاٹ نمبر 53-D بلاک 6 شامل ہیں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں ہونے والی غیرقانونی تعمیرات سے ضلع شرقی کے ڈائریکٹر ضیا بخوبی واقف ہیں۔ لیکن ڈائریکٹر ضیا کی جانب سے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جارہا۔ ایس بی سی اے افسران کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر ضیا ایک کٹھ پتلی ڈائریکٹر ہیں۔ جبکہ ان کے علاقے کا سارا کنٹرول یونس میمن کے فرنٹ مین محمد فاروق اور آغا مقصود عباس کے پاس ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ نئے ڈی جی ایس بی سی اے سلیم رضا کے چارج لینے کے بعد ڈائریکٹر ضیا نے اپنے ماتحت افسران سے کہا ہے کہ اب کوئی سسٹم نہیں چلے گا اور کسی سسٹم والے کا حکم ماننے کی ضرورت نہیں۔ جس کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ڈائریکٹر ضیا کو سسٹم کے ایک ذمہ دار نے فون کیا اور ڈائریکٹر ضیا ایک بار پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں نئے ڈی جی کی تعیناتی یونس میمن سسٹم کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی خواہش تھی کہ سابق ڈی جی شمس الدین سومرو کو ہٹایا جائے۔ لیکن یونس میمن سسٹم کے سامنے وہ بے بس تھے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے یونس میمن کا نام لیے جانے سے ناصر حسین شاہ کو موقع ملا اور وہ شمس الدین سومرو کو ہٹوانے میں کامیاب ہو گئے۔ شمس الدین سومرو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ صرف یونس میمن کے فرنٹ مین محمد فاروق کے احکامات مانتا ہے۔ سابق ڈی جی شمس الدین سومرو آغا مقصود عباس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اگر آغا مقصود عباس کسی من پسند افسر کو پوسٹنگ دلوانے کے لیے شمس الدین سومرو کو فون کرتا تو وہ انہیں منع کر دیتا تھا۔ جس کے بعد آغا مقصود عباس، فاروق کے ذریعے فون کرا کے اپنے کام کراتا تھا۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس کی غلط حکمت عملی کے باعث ہی یونس میمن کے پٹہ سسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یونس میمن اور محمد فاروق چاہتے تھے کہ ایس بی سی اے پٹہ سسٹم کے حوالے سے ان کا نام منظر عام پر نہ آئے اور وہ آغا مقصود عباس کو فرنٹ پر رکھ کر سارا پٹہ سسٹم چلائیں۔ لیکن آغا مقصود عباس نے یونس میمن اور محمد فاروق کے ناموں کو خفیہ نہیں رکھا۔ ’’امت‘‘ کو ایس بی سی اے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آغا مقصود عباس نے جس افسر کو ایریا دیا۔ اس کو یہ بتایا کہ یہ سسٹم زرداری کا فرنٹ مین یونس میمن چلا رہا ہے اور ذمے داری فاروق کو اور مجھے دی گئی ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کے نئے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم رضا اور یونس میمن سسٹم کے معاملات طے نہیں ہو سکے ہیں۔ نئے ڈائریکٹر سلیم رضا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا خاص بندہ ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ نئے ڈی جی بھی آغا مقصود عباس کے احکامات ماننے پر تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں آغا مقصود عباس کی جانب سے موجودہ ڈی جی سلیم رضا کو متعدد فون کیے گئے۔ لیکن ان کی جانب سے فون اٹینڈ نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال سے آغا مقصود، جمیل میمن اور مشتاق سومرو سے مشورے لے رہے ہیں۔ یہ دونوں ڈائریکٹر یونس میمن کے پٹہ سسٹم کے سخت خلاف ہیں۔ دونوں ڈائریکٹروں کی جانب سے نئے ڈی جی کو ایس بی سی اے کے ان حاضر سروس افسران کی فہرست بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ جو یونس میمن کے پٹہ سسٹم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ذریعے کے بقول یونس میمن کے پٹہ سسٹم میں جو ایس بی سی اے کے حاضر سروس افسران سب سے زیادہ فعال ہیں۔ ان میں ماجد مگسی، شہزاد آرائیں، الطاف کھوکھر، محمد رقیب، ماجد خان، ندیم اور دیگر شامل ہیں۔

غیرقانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیرات جاری

پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات میں بلڈر مافیا کی جانب سے ایس بی سی اے قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں۔ پلاٹ نمبر 39-V بلاک 6 میں بلڈر کی جانب سے ایس بی سی اے قانون کے خلاف ٹائون ہائوسز بنائے گئے۔ جس میں لازمی کھلی جگہ رکھنے کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسی طرح پلاٹ نمبر 40-2-4 بلاک 6 پر بھی غیرقانونی ٹائون ہائوسز بنائے جارہے ہیں۔ پلاٹ نمبر 39-L بلاک 6 پی ای سی ایچ ایس پر بھی بلڈر مافیا کی جانب سے غیرقانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیرات جاری ہیں۔ جبکہ پلاٹ نمبر 40-N بلاک 6 پر بھی غیرقانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیر جاری ہے۔ مذکورہ پلاٹ پر سی او ایس کی خلاف ورزی بھی کی گئی ہے۔ پلاٹ نمبر 35-N بلاک 6 پر بلڈر کی جانب سے نقشہ کے برخلاف تعمیرات کرتے ہوئے ٹائون ہائوسز بنائے گئے ہیں۔ پلاٹ نمبر 38-P پر نقشہ کے خلاف تعمیرات کی گئیں اور سی او ایس کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ پلاٹ نمبر 32-F بلاک 6 پر غیر قانونی ٹائون ہائوسز ایس بی سی اے کی منظوری کے بغیر بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ پلاٹ نمبر 43-N بلاک 6 پر بھی بلڈر ایس بی سی اے کی منظوری کے بغیر غیر قانونی ٹائون ہائوسز بنا رہا ہے۔ پلاٹ نمبر 43-A پر بلڈر کی جانب سے غیر قانونی فلور بغیر کسی اتھارٹی کی منظوری کے ڈالا جارہا ہے۔ پلاٹ نمبر 43-2-C پر ایک پورا فلور غیرقانونی ڈالا گیا۔ جس میں ایس بی سی اے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ پلاٹ نمبر 43-2-D پر بھی غیر قانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح پلاٹ نمبر 43-2-G بلاک 6 پر بھی غیرقانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیر جاری ہے۔ اسی طرح پلاٹ نمبر 50-F بلاک 6 پر بھی غیر قانونی ٹائون ہائوسز کی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ بلڈر کی جانب سے ٹائون ہائوسز کا نقشہ منظور نہیں کرایا گیا۔ پلاٹ نمبر 45-N بلاک 6 میں بھی غیر قانونی ٹائون ہائوسز بنائے گئے۔ پلاٹ نمبر 51-D بلاک 6 میں نقشہ کے خلاف غیر قانونی میزنائن فلور بنایا جارہا ہے۔ جبکہ پلاٹ نمبر 53-D بلاک 6 پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی پر نقشہ کے خلاف چھتوں کی لمبائی رکھ کر تعمیرات کی جارہی ہیں۔