فائل فوٹو
فوٹو سوشل میڈیا

’’یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے‘‘

محمد قاسم:
طالبان مجاہدین نے کابل کو بغیر گولی چلائے فتح کر کے پوری دنیا کو اپنی حکمت عملی سے حیران کر دیا ۔1975ء میں ویت نام سے جس طرح امریکا نے اپنے سفارت کاروں کو ایمبیسی کی چھت سے بذریعہ ہیلی کاپٹر نکالا تھا۔ چھیالیس برس بعد امریکا نے اسی طرح کابل سفارت خانے کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اپنے سفارتی عملے کو ایئرپورٹ منتقل کیا۔ امریکن یونیورسٹی آف کابل کی انتظامیہ نے تمام ریکارڈ جلا دیا۔

Fall of Saigon — the Vietnam War moment being compared to US' evacuation  from Afghanistan

 

طالبان مجاہدین نے کابل کی مساجد سے اعلانات کیے ہیں کہ تمام لوگ اپنی معمول کی زندگی گزاریں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور نہ کسی سے کوئی تعرض کیا جائے گا۔ طالبان کو کسی کے مال، جائیداد، دکان، گھر اور کاروبار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کابل سے موصول اطلاعات کے مطابق مشرقی صوبہ ننگرہار اور لغمان پر کنٹرول کے بعد طالبان مجاہدین مشرق سے کابل کی طرف پہنچے۔ جبکہ لوگر، قندھار، شمالی افغانستان سے پروان کے راستے بھی مجاہدین کابل کے قرب و جوار میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے کمانڈروں اور رہنمائوں کو اطلاع کر دی کہ وہ منصوبے کے تحت کابل کا محاصرہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

سب سے پہلے طالبان قیادت کی ہدایت پر مجاہدین نے بگرام جیل کے اہلکاروں کو غیر مسلح کیا اور جیل میں قید تمام قیدیوں کو رہا کرا دیا۔ اس کے بعد طالبان مجاہدین نے کابل کے داخلی دروازے پر پہرہ شروع کر دیا۔ اسی طرح پل محمود خان، شمال میں صادق سرائے، کابل لوگر غزنی شاہراہ اور کابل قندھار شاہراہ سے کابل میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے کابل پولیس کو بتایا کہ وہ غیر مسلح ہو جائے اور ٹریفک کا نظام سنبھالے۔ طالبان کے کابل میں داخلے کا سنتے ہی مغربی پروپیگنڈے کا شکار سینکڑوں شہریوں نے کابل سے نکلنے کی کوشش کی لیکن طالبان مجاہدین نے انہیں امن و تحفظ کی یقین دہانی کرا کے واپس بجھوا دیا۔

طالبان کے قطر دفتر کی شوریٰ، رہبری شوریٰ اور ہلمند شوریٰ نے متفقہ طور پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام معافی کا اطلاق صدر اور اعلیٰ حکام سے لے کر دفتر میں کام کرنے والے چپڑاسی تک سب پر لاگو ہوگا۔ طالبان نہ کسی کے گھر میں داخل ہوں گے اور نہ ہی کسی کی زندگی سے تعرض رکھیں گے۔ کابل کے قرب و جوار اور دارالحکومت کے اندر دری اور فارسی میں طالبان کی جانب سے تقسیم کئے گئے مختصر معافی نامے میں کہا گیا ہے کہ طالبان بزور طاقت دارالحکومت میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس کیلئے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ افغان عوام اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں۔ ملک سے جانے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی اپنے مال اور جائیدادوں کو اونے پونے داموں بیچیں۔ ان سب کا تحفظ طالبان کی اولین ذمہ داری ہے۔ طالبان، مذہبی بنیادوں پر مسلکی بنیادوں پر اور دیگر بنیادوں پر کسی کے ساتھ کوئی جانب داری نہیں رکھیں گے۔ افغانستان کے تمام شہری برابر ہیں۔ ملک میں رہنے والے سکھوں، ہندوئوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے گھروں میں رہنے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ طالبان کی اولین ذمہ داری ہے۔ طالبان نے کابل پولیس کو اپنا کام جاری رکھنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

 

طالبان کی رہبری شوریٰ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل، افغانستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے اور دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں پر طالبان خون خرابہ نہیں چاہتے۔ طالبان کابل میں لوگوں کی پر امن زندگی کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ کابل سیکورٹی اہلکار اگر طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں تو ان کو اختیار ہے۔ اوراگر وہ اپنے گھروں کو جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔

رہبری شوریٰ کی جانب سے غیر ملکیوں کو کہا گیا ہے کہ ان کے تما م سفارت خانوں اور دفاتر کی حفاظت کی ذمہ داری طالبان قبول کرتے ہیں۔ تاہم جو غیر ملکی اپنی مرضی سے جاناچاہتے ہیں، طالبان انہیں نہیں روکیں گے۔ اس حوالے سے جس کو مسائل کا سامنا ہو وہ طالبان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب روس نے طالبان سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ وہ اپنے سفارتی عملے کو کابل سے نہیں نکالنا چاہتا۔ چین سمیت دیگر ممالک نے بھی اپنے سفارت خانے بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب کابل ایئر پورٹ پر انخلا کا آپریشن، ترکش فورسز کی زیر نگرانی جاری ہے اور درجنوں طیارے غیر ملکیوں کو لے کر دبئی اور دیگر ممالک کو جا رہے ہیں۔