بلوچ علیحدگی پسندوں کو تربیت اور فنڈز دے کر پاکستان روانہ کیا جاتا-فائل فوٹو
بلوچ علیحدگی پسندوں کو تربیت اور فنڈز دے کر پاکستان روانہ کیا جاتا-فائل فوٹو

سقوط کابل کے بعد’’را‘‘کے 50 ٹریننگ کیمپ ویران ہو گئے

سجاد عباسی:
کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا افغان نیٹ ورک بھی تتر بتر ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کے مختلف شہروں میں ’’را‘‘ نے پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے لیے پچاس سے زائد کیمپ قائم کر رکھے تھے جن میں بی ایل اے، بی آر اے وغیرہ سمیت کئی بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کو تربیت اور فنڈنگ کے بعد پاکستان میں مختلف وارداتوں کے لیے بھیجا جاتا تھا۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان میں سے بیشتر کیمپ گزشتہ تین ماہ کے دوران طالبان مجاہدین کی تیز رفتار فتوحات کے پیش نظر بند کر دیے گئے تھے۔ دہشت گردوں کے ہینڈلر بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر نئی دہلی روانہ ہوگئے تھے۔ تاہم اپنے حق میں حالات سازگار ہونے کے انتظار میں ان میں سے کچھ بھارتی انٹیلی جنس افسران کابل میں گذشتہ ہفتے تک موجود رہے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عالمی دبائو کے پیش نظر طالبان مجاہدین فی الحال کابل پر حملہ نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق ان بھارتی افسران کی معلومات اور امیدوں کا زیادہ تر انحصار امریکا سمیت ان عالمی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس پر تھا جن میں بتایا گیا تھا کہ طالبان اگر کابل پر قبضے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو اس میں انہیں کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے۔ تاہم طالبان کی پے درپے برق رفتار کارروائیوں نے بھارتی حکام کے اوسان خطا کر دیے اور انہیں عجلت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کے بڑے لیڈراورکمانڈر تو پہلے ہی یورپ اور مشرق وسطیٰ سمیت مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ تاہم طالبان کارروائیوں کی حالیہ لہر کے دوران نچلے درجے کے کارندے بھی افغانستان چھوڑ گئے تھے، جن میں سے بعض کے بارے میں گمان ہے کہ وہ اپنے ہینڈلرز کے ساتھ بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایک امکان یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض دہشت گرد افغانستان میں مقیم بلوچ پناہ گزین خاندانوں کی آڑ میں روپوش ہوگئے ہوں۔ تاہم طالبان مجاہدین کی جانب سے فوری طور پر ان کے خلاف کسی کارروائی کا امکان اس لیے موجود نہیں کہ اول تو وہ فی الوقت حکومتی اور انتظامی امور میں مصروف ہیں۔ دوسرے، افغان اور پشتون روایات کے مطابق افغانستان میں مقیم پناہ گزین خاندانوں کو بطور مہمان عزت و احترام اور سیکورٹی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ لہٰذا انہیں افغانستان بدر نہیں کیا جائے گا۔ تاہم کسی قسم کی منفی سرگرمیوں کی صورت میں تادیبی کارروائی میں دیر نہیں کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق بلوچ پناہ گزین خاندانوں کی زیادہ تعداد افغان صوبے قندھار اور نیمروز میں مقیم ہے۔ ان میں سے کچھ تو عسکری کارروائیوں میں ملوث کارندوں کے خاندان ہیں۔ جبکہ دیگر کا تعلق ڈیرہ بگٹی کے ان خاندانوں سے ہے جو نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کے وقت دربدر ہو گئے تھے۔ ان کی کل تعداد پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ جنیوا اور لندن میں مقیم علیٰحدگی پسند بلوچ رہنمائوں کا خیال ہے کہ طالبان کی حکومت بھی پر امن رہنے کی صورت میں بلوچ پناہ گزینوں کو افغانستان بدر نہیں کرے گی۔ کیوں کہ بلوچستان میں بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں۔

ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغانستان پر طالبان مجاہدین کے کنٹرول کی صورت میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو بطور ادارہ اسٹریٹجک نقصان تو ہوا ہی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ’’را‘‘ کے افسروں کے دھندے بھی بند ہوگئے ہیں ، جو پاکستان میں دہشت گردی کرنے اور کرانے والے اپنے ایجنٹوں کو دی جانے والی رقوم پر بھی کک بیکس وصول کرتے تھے۔
ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بلوچ رہنما ڈاکٹر جمعہ خان مری نے ’’امّت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کرنے والے ’’را‘‘ کے کئی افسر کروڑ پتی اور ارب پتی ہوگئے۔ کیونکہ اس مد میں دی جانے والی رقم کا کوئی باقاعدہ آڈٹ نہیں ہوتا تھا۔ لہذا ’’را‘‘ کے افسران کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں پوسٹنگ کے لئے بھارتی فوجی افسران بڑی بڑی سفارشیں بھی کراتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی وہ زیادہ سے زیادہ وہاں تعینات رہیں۔
’’امت‘‘ کے اس سوال پر کہ، کیا اب پاکستان میں بھارتی سر پرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں رک جائیں گی؟ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس میں عارضی وقفہ آ سکتا ہے اور صورت حال کے مطابق حکمت عملی تبدیل بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے دیگر ممالک میں موجود ’’را‘‘ نیٹ ورک کو فعال کیا جا سکتا ہے، جو یورپ اور مشرق وسطیٰ سمیت مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں پہلے سے موجود ہے اور جس کے افسران اور اہلکار بیرون ملک مقیم منحرف بلوچ رہنمائوں سے رابطے میں ہیں اوران کے ذریعے دہشت گردوں کو فنڈنگ کی جا سکتی ہے۔

ایک اہم ذریعے نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ افغانستان کے عبوری اور ہنگامی حالات کا فائدہ اٹھا کر ’’را‘‘ کی جانب سے سرحد پار تخریبی کارروائیوں میں اضافہ کردیا جائے۔ جیسا کہ یوم آزادی پر کراچی میں بس پر بم حملہ کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے اور حساس ادارے صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔