امت رپورٹ:
افغانستان میں طالبان مجاہدین کی حکمرانی کا ایک ماہ گزر چکا ہے۔ تاہم امریکی افواج کے بیس سالہ قبضے اور ذلت آمیز انخلا کی نشانیاں اب بھی باقی ہیں۔ الجزیرہ انگلش نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجی کیمپ کے تازہ اندرونی مناظر بیان کئے ہیں۔ اور تصاویر کی مدد سے بتایا ہے کہ کس خوف کے عالم میں امریکی فوج نے افغانستان سے بوریا بستر باندھا تھا کہ اپنے زیر استعمال اشیا بھی ساتھ لے جانے سے قاصر رہے۔ افراتفری کا عالم یہ تھا کہ ایک زیر مطالعہ ادھ کھلی کتاب وہیں پڑی رہ گئی۔ برتن میں پڑا سالن منہ چڑاتا رہا۔ دوائیاں اٹھانے کی مہلت بھی نہ ملی۔ حتیٰ کہ جوتے تک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
رپورٹ کا آغاز اس جملے سے کیا گیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر ایک ویران امریکی بیرک کے بستر پر ’’ناٹ گڈ ڈے ٹو ڈائی‘‘ نامی کتاب پڑی ہے۔ اس کتاب میں افغانستان میں امریکی فوج کے ناکام آپریشن اناکونڈا کی ان کہی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جسے ایوارڈ یافتہ صحافی سین نیلر نے لکھا تھا۔ آپریشن انا کونڈا دو مارچ دو ہزار دو کو القاعدہ کے خلاف کیا گیا تھا۔ اگرچہ امریکی فوج نے اس کارروائی کی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم آپریشن اناکونڈا کے عینی شاہد اور کتاب کے مصنف سین نیلر نے بیان کیا ہے کہ کس طرح غلط فوجی حکمت عملی، غیر موثر انٹیلی جنس اور مخالف فریق کی طاقت اور لڑنے کے جذبے کا درست اندازہ نہ لگانے کے سبب یہ آپریشن ناکام رہا تھا۔ اور امریکہ کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ویران بیرک کے بستر پر پڑی کتاب یہ بیان کر رہی ہے کہ جلد بازی میں کئے جانے والے رسوا کن انخلا کے موقع پر کوئی امریکی فوجی ’’ناٹ گڈ ڈے ٹو ڈائی ‘‘ کو بھی پڑھ رہا تھا۔ جس میں اٹھارہ برس پہلے کے ناکام آپریشن کی تفصیلات درج ہیں۔
بستر کے ساتھ والی میز پر پانی کی دو بوتلیں، دوگولیوں کے خالی خانے اور ایک اسموک گرینڈ رکھا ہوا ہے۔ قریب ٹیباسکوہاٹ سوس کی بوتل اور امریکی فوج کا جنگی اسٹیپلر پڑا ہے۔
ایک دوسرے کمرے میں کھانے کے سڑنے کی زبردست بو پھیلی ہوئی ہے۔ شاید انخلا کے وقت کوئی امریکی فوجی ادھورا کھانا چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔
الجزیرہ انگلش کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے فوجی کوارٹرز میں بکھری امریکی میڈیکل کٹس، واسکٹ، جوتے، گدے، ٹوائلٹ پیپرز، دستاویزات اور دیگر اشیا رسوا کن انخلا کی داستان سنارہی ہیں۔ جنہیں افغانستان کے نئے حکمرانوں (طالبان) نے ابھی تک ٹھکانے نہیں لگایا ہے۔
کابل ایئرپورٹ پر تعینات ایک افغان سیکورٹی گارڈ نے کہا۔ ’’طالبان کا قبضہ ناقابل تصور تھا۔ لیکن امریکہ کا یوں افراتفری میں بھاگ جانا اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین تھا۔ طالبان کے دارالحکومت میں داخل ہوتے ہی ان کی گھبراہٹ اور الجھن دیکھنے والی تھی۔ میں نے پہلی بار امریکی فوجیوں کو اس حالت میں دیکھا‘‘۔
امریکی انخلا کے ایک ماہ بعد کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجی کیمپ کے اندرونی مناظر بیان کرتے ہوئے الجزیرہ نے مزید لکھا ہے کہ یو ایس کیمپ کے ایک فیلڈ کلینک میں، ایک چھوٹے سے فائر اسٹیشن کے ساتھ، فرسٹ ایڈ کٹس آئوٹ ڈور جم سے چند میٹر کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ والی بال کورٹ اور میٹنگ روم میں پڑی سرخ رنگ کی کرسیوں پر گرد جمی ہے۔
جراثیم کش اسپرے کی شدید بو کمروں سے اب بھی اٹھ رہی ہے۔ جہاں طبی آلات کے مہر بند ڈبے رکھے ہیں۔ ساتھ ہی گرے شیٹس میں ڈھکے بستر کھلے پڑے ہیں۔
دوسری جانب کابل ایئرپورٹ کے عسکری حصوں میں درجنوں تباہ شدہ طیارے اور فوجی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ گولیوں سے چھلنی ہیلی کاپٹروں کے ہنگروں میں افغان فوجی وردیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دروازے کے بغیر ایک چھوٹے طیارے کے پاس کھڑا ایک طالبان، ٹوٹی پھوٹی کھڑکیوں کو دیکھتا ہے اور مسکراہٹ کے ساتھ بلند آواز میں کہتا ہے ’’بوم، بوم، بوم‘‘۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے زیر استعمال بکھری اشیا اور جو کچھ پیچھے رہ گیا ہے، وہ گھبراہٹ میں کئے جانے والے انخلا کا منہ بولتا ثبوت ہے۔