کراچی:سپریم کورٹ نے گجر نالہ، اورنگی نالہ اور محمود آباد نالے کے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناع معطل کردیے ۔
عدالت کے طلب کرنے پر پروزیراعلی سندھ مراد علی شاہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے تجاوزارت کے خاتمے کا حکم دیدیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ لوگ عدالت کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ اب تک کیا ہوا ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں یہ بتائیں؟
ضیا الدین اسپتال کے وکیل انور منصور خان بھی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ کے اسپتال کے اطراف تو سب قبضے ہو چکے ہیں۔ کے ڈی اے کے علاقے کا یہ حال ہے۔
وکیل انور منصور خان نے کہا بتایا کہ ہم نے قبضہ نہیں کیا، لوگ وہاں گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہی ہمارا موقف ہے کہ اردگرد قبضے ہیں۔
چیف جسٹس نےڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ یہ بتائیں، سٹرک پر گھر کیسے بنے؟ یہ سب 3 سال کے اندر اندر ہوا۔ گلستان چلے جائیں، 90 فیصد کراچی گرے اسٹرکچر پر ہے۔
گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ کراچی تو کسی بھی وقت گر جائے گا۔ آپ لوگ دفتر میں صرف چائے پینے جاتے ہیں ، یہ ہے میٹرو پولیٹن سٹی؟،جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ پھرآپ کرکیا رہے ہیں؟
ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن نے عدالت کو بتایا مسئلہ یہ ہے کہ عہدوں پرکوئی رہتا نہیں، محمد علی شاہ او پی ایس افسر کو ڈی جی بنا دیا تھا۔ لوگ سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آجاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے آصف میمن سے پوچھا کلفٹن میں کتنے رفایی پلاٹس ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ کلفٹن میں 3 ہزار کے قریب رفاعی پلاٹس ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس افسران کی کمی ہے۔ ایک افسر4،4افسران کی جگہ پرکام کررہا ہے۔ جوافسرتعینات کرتےہیں اسے وفاق واپس بلالیتا ہے۔
چیف جسٹس نےوزیراعلیٰ سندھ کیساتھ مکالمے میں کہا کہ آپ سیاسی بیان نہ دیں، کام کرکےدکھا دیں۔ مراد علی شاہ نے کہا میں سیاسی بیان نہیں دے رہا حقیقت بیان کررہاہوں۔ ہم کام کر رہے ہیں ،میں اپنے مسائل سے بھی عدالت کو آگاہ کررہا ہوں۔