سابق وزیراعظم عمران خان کے کاغذات نامزدگی سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے جمع  کرائے
سابق وزیراعظم عمران خان کے کاغذات نامزدگی سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے جمع  کرائے

وزیر اعظم نے پیٹرول مہنگا کرنے اور گیس قلت کی نوید سنا دی

اسلام آباد:وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں کے تناظر میں ملک میں پیٹرول کی قیمت بڑھانے پڑے گی اور سردیوں میں گیس کی قلت ہو گی۔

قوم سے خطاب کے دوران ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے  وزیر اعظم نے کہا کہویلفیئر پروگرام کے تحت دو کروڑ خاندانوں کے لیے ایک سو بیس ارب روپے کے پیکج کا اعلان کر رہے ہیں جو کہ تقریباً 13کروڑ پاکستانیوں کو فائدہ پہنچائے گا ،اس پروگرام کے تحت آٹے ،گھی اور دال پر 30فیصد سبسڈی دی جائے گی جو چھ ماہ تک جاری رہے گی تاکہ مشکل وقت نکل سکے،2 کروڑ خاندانوں کے لیے گھی ،آٹا اور دال کی قیمتوں پر30 فیصد رعایت ملے گی، اس سے ملک کے 13 کروڑ عوام کو فائدہ ہوگا۔ 40لاکھ خاندانوں کے لیے سود کے بغیر قرضوں کا پروگرام لارہے ہیں، کسانوں کو سود کے بغیر5لاکھ روپے تک کا قرضہ ملے گا۔ میری دو خاندانوں سے درخواست ہے کہ وہ ملک سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آدھی کردوں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہم پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فلاحی پروگرام کا افتتاح کررہے ہیں، ہمیں اس ملک کو فلاحی ریاست کی طرف لے کر جانا ہے، احساس  پروگرام کی ٹیم نے 3سا ل میں ڈیٹا اکٹھا کیا، ڈیٹا کے بغیر سبسڈی دینا آسان نہیں ، ہمیں جب حکومت ملی تھی تب معاشی حالات بہت خراب تھے، ہمیں بیرون ممالک سے لیا گیا قرض واپس دینا تھا لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، سعودی عرب، یو اے ای او چین کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری مدد کی ورنہ ہم دیوالیہ ہوجاتے، اس کے باوجود ہمیں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں ایک سال لگا اوراس کے بعد کورونا آگیا، اس سے پاکستان  ہی نہیں پوری دنیا متاثر ہوئی، بھارت میں کرفیو لگا تو ہم پر کافی دباؤ تھا کہ آپ کیوں نہیں لاک ڈاون لگاتے، ہمیں خوف تھا کہ کورونا  کیسز بڑھے تو حالات خراب ہوجائیں گے، پاکستان نے بہتر طریقے سے کورونا کا مقابلہ کیا، کورونا کا بہتر طریقے سے سامنا کرنے پر  دنیا نے ہماری تعریف کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے کورونا کی وبا کے دوران اپنی زراعت کے شعبے کو بچایا، جس کے نتیجے میں چاول کی پیداوار میں  13.4 فیصد اضافہ ہوا، اسی طرح گندم اور  مکئی کی پیدوار میں بھی اضافہ ہوا ہے، کپاس کی پیدوار میں بھی 81 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں مہنگائی کا مسئلہ ہے، میڈیا کا کام تنقید کرنا ہے اس سے معاشرے کا فائدہ ہوتا ہے، میڈیا کو کہتا ہوں کہ وہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کتنی بڑھی،عالمی سطح  پر ضروری اشیا کی قیمتوں میں 50 اور پاکستان میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، تیل مہنگا ہوتا ہے تو ساری چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں، پچھلے تین چار ماہ میں تیل کی قیمت 100 فیصد بڑھ گئی ہے،بھارت میں 250 روپے اور بنگلہ دیش 200 روپے جب کہ پاکستان میں 138روپے لیٹر ہے، ہمارا خسارہ بڑھتا جارہا ہے، ہمیں پٹرول کی قیمت بڑھانا پڑے گی۔ کورونا کے بعد قیمتیں نیچے آنے لگیں گی۔

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی فروخت میں 131فیصد اضافہ ہوا ہے،اس بار زراعت کے شعبے میں1100ارب روپے گیا ہے،چاول کی پیدوار13.4فیصد ہے گندم اور مکئی کی پیدوار میں بھی اضافہ ہوا ہے،ٹیکس وصولیوں میں 37فیصد اضافہ ہوا ہے،لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے،تعمیرات کے شعبے میں 600ارب روپے کے شعبے چل رہے ہیں ،آئی ٹی کے شعبے میں 47فیصد اضا فہ ہوا ہے،خیبر پختونخوا کے تمام شہریوں کو ہیلتھ انشورنس دے چکے ہیں،مارچ تک پنجاب کے تمام خاندانو ں کو ہیلتھ انشورنس دے دیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب ہمیں پاکستان ملا تب پاکستان کا خسارہ سب سے زیادہ تھا، قرضے بھی سب سے زیادہ تھے اور سود بھی ان قرضوں پر سب سے زیادہ دینا پڑا،ہمیں جب حکومت ملی تھی تب معاشی حالات بہت خراب تھے،ہم نے کورونا کے دوران آٹھ ارب روپے معیشت کو بچانے پر خرچ کیا،کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا متاثر ہوئی ہے،مشکل حالات کی وجہ سے ہمیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا،ہمارے پاس اتنے ڈالر نہیں تھے جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے بہتر طریقے سے کورونا کا مقابلہ کیا،کورونا کو بہتر طریقے سے ہینڈل کرنے پر دنیا نے ہماری تعریف کی،خوف تھا کہ کورونا کیسز بڑھےتو حالات خراب ہوجائیں گے،ہم نے چھوٹے اور سمار ٹ لاک ڈاون لگا کر اپنی معیشت کو بچایا،کورونا کےد وران خوف تھا کہ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، گزشتہ 100 برس میں اتنا بحران پیدا نہیں ہوا جتنا کورونا وبا سے صورتحال پیدا ہوئی، پاکستان سمیت پوری دنیا کے ممالک متاثر ہوئے اور اس مرحلے میں این سی او سی نے نمایاں کردار ادا کیا اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے معاشی سرگرمیاں محدود پیمانے پر جاری رہیں۔