گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوگیا- بازار میں تلخ کلامی کے واقعات بھی بڑھ گئے۔فائل فوٹو
 گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوگیا- بازار میں تلخ کلامی کے واقعات بھی بڑھ گئے۔فائل فوٹو

ہائے رے مہنگائی۔ پرانے کپڑے بھی غریبوں کی پہنچ سے دور

حسام فاروقی:
اس بار لنڈے کے کپڑے بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے لنڈے کے کپڑوں کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کی نسبت 4 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ماضی میں سستے داموں ملنے والی ایک جیکٹ اب ایک ہزار روپے سے زائد کی فروخت کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب لنڈا بازار میں قیمتوں کے اضافے کے سبب غریب افراد کے نہ آنے سے لنڈے کا کام کرنے والے دکاندار خالی بیٹھے رہتے ہیں اور بہت مشکل سے ان کے گھر کا خرچہ پورا ہو رہا ہے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے کئے جانے والے سروے کے دوران لنڈا بازار میں کاروبار کرنے والے دکانداروں کامران، شیر عالم، نواز خان اور عادل کا کہنا تھا کہ پچھلے تین سال کی نسبت اس برس مہنگائی نے ہر انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ جس کا اثر لنڈا بازار میں فروخت ہونے والی مصنوعات پر بھی پڑا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں اس سال لنڈا کے کپڑوں کی قیمتیں 4 گنا بڑھ چکی ہیں۔ گرم ملبوسات کے علاوہ پردے، بیگ، شیروانیاں اور خواتین کے سوٹس کے بھی دام زیادہ ہیں۔ جو لوگ خریداری کیلئے لنڈا بازار کا رخ کر بھی رہے ہیں۔ وہ قیمتیں سن کر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لنڈا بازار میں دکاندار دن بھر فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کیلئے دکان کا کرایہ نکالنے کے ساتھ ساتھ بجلی کا بل اور گھر کا خرچہ چلانا بھی نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ دکانداروں نے بتایا کہ پہلے 3 سے 7 سال کے بچے کی ایک اچھی جیکٹ 3 سو سے 4 سو روپے کی آتی تھی۔ اب اس کی قیمت بڑھ کر 12 سو سے 14 سو روپے تک ہوگئی ہے۔ اسی طرح پہلے جو اچھا پردہ 3 سو روپے کا ملتا تھا۔ اب وہ ایک ہزار روپے سے 12سو روپے تک کا ہے۔ بیگ، کپڑوں اور شیروانیوں کی بھی قیمتیں بڑھی ہیں۔ ایک سوال پر دکانداروں کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا جس چیز پر زیادہ اثر پڑا ہے۔ وہ گرم ملبوسات ہیں۔ کیونکہ جن کے پاس پہلے سے اسٹاک موجود تھا۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے قیمتیں بڑھا دی ہیں اور اسی وجہ سے یہ مال ہمیں بھی مہنگا مل رہا ہے اور ہم کپڑے مہنگے داموں بیچنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال قبل اس مارکیٹ یعنی لائٹ ہائوس میں بنی دکانوں پر سردیوں کے علاوہ بھی خریداروں کا اتنا رش ہوتا تھا کہ پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اب اکا دکا خریدار ہی نظر آتے ہیں اور وہ بھی قیمتیں سن کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ہم اپنے گھر کے بچوں کو بھی انہیں دکانوں سے ملبوسات نکال پہننے کیلئے فراہم کرتے تھے۔ لیکن اب نہ تو پہلے جیسی پائیدار چیزیں آرہی ہیں اور نہ ان کی قیمتیں کم ہیں کہ اپنے بچوں کو پہنا سکیں۔ اس بار زیادہ تر لوگوں کی ترجیح یہ ہے کہ پچھلے سال کے رکھے ہوئے گرم ملبوسات اپنے بچوں کو پہنائیں۔
ایک خریدار عبدالواحد کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میں ہر سال سردیاں شروع ہونے سے قبل اس بازار میں آکر اپنے بچوں کیلئے گرم ملبوسات کی خریداری کرتا ہوں۔ انہیں میں خرید کر پہلے دھلواتا ہوں۔ اس کے بعد ان کی جہاں ضرورت ہو وہاں سے سلائی کرکے اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے استعمال میں لاتا ہوں۔ مگر اس بار لنڈا بازار میں قیمتیں تو جیسے آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جس چیز کی قیمت پوچھ رہا ہوں۔ ایک ہزار روپے سے کم کی نہیں۔ اس حساب سے تو اس سال مجھے سردیوں میں پرانے ہی کپڑوں سے کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ جو قیمتیں دکاندار گرم ملبوسات کی مانگ رہے ہیں، وہ کسی بھی غریب انسان کے بس کی بات نہیں۔ اگر ہم ان کی بتائی ہوئی قیمتیں ادا کرکے گرم ملبوسات خرید بھی لیں گے تو پھر اپنے بچوں کو کیا کھلائیں گے‘‘۔

دکانداروں نے بتایا کہ اس سال آگے سے مال مہنگے داموں آرہا ہے۔ جس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بتایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سے سامان منگوانے کی مد میں جو ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، اس میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، جس کا اثر غریب انسان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر پڑا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں لنڈا کا جو بھی سامان آتا ہے، جس میں کمبل، گرم ملبوسات، خواتین اور بچوں کے کپڑے، بیگ اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ وہ تھائی لینڈ، کوریا، چائنا، امریکہ اور جرمنی سے آتے ہیں۔ پہلے جو چالیس کلو کا بورا ہمیں 6 سے 7 ہزار روپے میں ملتا تھا۔ اس سال اس کی قیمت بڑھ کر 10 سے 11 ہزار روہے ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے سامان مہنگا ہوا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ حکومت ہے۔ جس کے دور حکومت میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے تلخ کلامی کے واقعات بھی ہونے لگے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے، جو بات سمجھے بغیر دکانداروں سے لڑائی جھگڑے پر اتر آتی ہیں۔ لنڈا بازار میں آنے والے خواتین چاہتی ہیں کہ انہیں ان کی پسند کی چیز آج سے تین سال قبل والی قیمت پر ہی مل جائے، جو اب ممکن نہیں رہا۔ یہ دکانداوں کو چور جیسے القابات سے بھی نواز دیتی ہیں۔ اگر کوئی خاتون اکیلی ہو تو دکاندار اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کسی خاتون کے ساتھ اگر کوئی مرد ہو تو وہ بھی دکاندار کو تلخ باتیں سنانے لگتا ہے اور پھر نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے‘‘۔