…………نذر الاسلام چوہدری…………
امریکا کی جانب سے چاند پر عسکری تعمیراتی کاموں اوربظاہر انسانی بستیاں بسانے کی خاطر یہاں خاص مشینوں کو چلانے کیلیے ایک ایٹمی بجلی گھر کے قیام کی کوششیں حتمی مرحلہ میں داخل ہوچکی ہیں ۔امریکی میڈیائی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ناسا ہر قیمت پرجلد ازجلد چاند پر ایٹمی بجلی گھر لگانا چاہتا ہے اوراس پروجیکٹ کیلیے انجینئرزاورسائنس دانوں سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔
یاد رہے کہ انچاس برس سے یعنی 1972 میں امریکی خلائی مشن اپالو-سترہ کی تکمیل کے بعد سے کسی بھی انسان نے چاند کی سطح کو نہیں چھواہے لیکن امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی اسپیس فورس کے نئے پلان کے تحت جتنی جلد چاند پر ایٹمی بجلی گھر کاقیام ممکن ہوگا اسی قدر جلد چاند کے پورے خطہ پر امریکی قبضہ ہوجائے گا ۔
چاند پر ایٹمی بجلی گھر کے قیام سے قبل امریکی و عالم سائنسدانوں نے یہاں سولر پینل کی مدد سے بجلی کے حصول اور تعمیراتی پروجیکٹوں کی تکمیل کا ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا لیکن ’’بوجوہ ‘‘اس سولر بجلی گھر کے منصوبہ کو قابل عمل قرار نہیں دیا گیا اور اس کے بدلہ ایک چھوٹا ایٹمی بجلی گھر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کیلیے ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ’’ناسا ‘‘چاند پر ایٹمی بجلی گھر لگانا چاہتا ہے اور اس ضمن میں امریکی خلائی ایجنسی کو ٹیکنیکل تجاویز درکار ہیں۔
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ’’ناسا‘‘ کے خلائی ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹس /ایڈمنسٹریٹر ’’جم رائوٹر‘‘کا کہنا ہے کہ ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب چاند اور مریخ سے متعلق مستقبل کے انسانی منصوبوں کی کامیابی کی ضمانت ہے ،ناسا ٹیکنیکل ماہرین کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ چاند کیلیے ایٹمی بجلی گھر زمین سے راکٹ کی مدد تیار کنڈیشن میں چاند کی جانب بھیجا جائیگا۔ یہ اسپیشل ایٹمی ری ایکٹر یورینیم ایندھن سے چلایا اور تھرمل مینجمنٹ سسٹم سے ٹھنڈا رکھا جائیگا۔یہ ایٹمی پلانٹ چاند کی سطح پر چالیس کلوواٹ بجلی بنائے گا اور ایک دہائی تک کارگزاررہے گا۔چاند پر ایٹمی بجلی گھر کے قیام کے حوالہ سے مجوزہ پروجیکٹ میں چاند کے مدار میں موجود خلائی جہاز سے اس ایٹمی بجلی گھرکو کنٹرول کرنے جیسی تجاویزطلب کی گئی ہیں،مزید سوچ بچار والے ٹیکنیکل معاملات میں چاند کی سطح پر لینڈکرنیوالے جہاز سے اس بجلی گھر کو جداکرنے اور چاند پر مختلف مقامات پر باآسانی منتقل کرنے جیسی خصوصیات بھی تجاویز میں شامل ہیں۔
’’ناسا‘‘ کی مطلوبہ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بجلی گھر اتنا چھوٹا ہوگا کہ چار میٹر قطر کے سلنڈر میں سما سکے اور زیادہ سے زیادہ چھ میٹر طویل ہو۔’’ ناسا‘‘ کو یہ ڈیزائن اور تجاویز اگلے برس 19 فروری2022 تک ارسال کی جا سکتی ہیں۔عالمی خبری ایجنسیوں اور میڈیا آئوٹ لٹس کا اپنی رپورٹس میں کہنا ہے کہ چاند پرممکنہ ایٹمی پاور پلانٹ کو اس سیارے پر مستقل انسانی کالونی اور عسکری مقاصد کے پروگرامز میں استعمال کیا جانا طے ہے جبکہ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند پر پہلی بار ایک ایٹمی پاورپلانٹ نصب کردیا گیاتو اس کی مدد سے نا صرف چاند پر انسانی پروجیکٹس میں تیزی آجائے گی بلکہ ان کایہ سائنسی اقدام مستقبل ناسا کی جانب سے سرخ سیارے’’ مریخ‘‘ کی تسخیری مشن میں بھی بہت معاون ثابت ہوگا،اسی لیے امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا اور وفاقی جوہری تحقیقی لیبارٹریز دونوں نے چاند پر ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب کی خاطر تجاویز طلب کی ہیں۔
اس ضمن میں اپنی گفتگو میں ناسا اسپیس ٹیکنالوجی مشن ڈائریکٹوریٹس کے ایڈمنسٹریٹر ’’جم رائوٹر‘‘ نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ یورینیم والے ری ایکٹر – جوہری توانائی کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنیوالے نظام- ری ایکٹر کو سرد رکھنے کیلیے تھرمل مینجمنٹ سسٹم اور 40 کلو واٹ بجلی کی تقسیم کا نظام شامل ہونا چاہئے جو مسلسل دس سال تک بجلی فراہم کرسکتا ہو۔جم رائوٹر کا کہنا تھا کہ ہمارے مجوزہ پلانٹ کوآٹو میٹک ہونا چاہئے جو چاند گاڑی کے ڈیک سے کام کرسکے۔خود کار ایٹمی ری ایکٹر لینڈر سے ہٹایا جا سکے، موبائل سسٹم پر چلایا جائے اوراسے مختلف مقامات پرلے جاکر آپریٹس کیا جاسکے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کی تجاویزاور ٹیکنیکل اسپیسی فی کیشن تحریری شکل میں19 فروری2022 تک جمع کرا دی جائیں۔یاد رہے کہ ایلون مسک اور جیف بیزوس جیسے کھرب پتی بھی چاند کی انسانی تسخیرکے پروگرامز میں شامل ہیں جو فوجی، سول اور کمرشل بنیادوں پر اس پروجیکٹ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
امریکی جریدے ’’لاس اینجلس ٹایمز‘‘ کا کہنا ہے کہ خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا، امریکی محکمہ برائے توانائی /ایڈاہو ریاست میں قائم نیشنل لیبارٹریزکی مدد چاند پر ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب کا منصوبہ اس لیے بھی بنا رہا ہے کہ یہاں امریکی اسپیس فورس کے قیام کیلیے بیرکس اور فوجی اڈوں کیساتھ ساتھ تجارتی بنیا دوں پرانسانی کالونیاں بھی آباد کی جائیں گی اور سیاحتی پروجیکٹ کو بھی شروع کیا جائے گا۔
کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ناسا کا چاند پر ایٹمی پلانٹ کے قیام کا مقصد چاندپر موجود کھربوں ڈالرز کی معدنیات نکالنا اور زمین پر بھیجنا ہے ۔جرمن میڈیائی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بظاہر چاند پر تعمیرات کیلئے اس کی اندرونی سطح پر یا زیر زمین سرنگیں بنا کر یہاں فوجی اڈے -بیرکس -سمیت انسانی رہائشی کالونیاں بنائی جائیں گی اوراس مقصد کیلیے یہاں زمین کی طرح بھاری بھرکم مشینیں تو نہیں لے جائی جاسکتیں لیکن بجلی سے چلنے والے ہلکے آلات کو چاند پر بھیجا جاسکتا ہے اوران آلات کی مدد سے چاند پر سرنگیں بنائی جائیں گے اگر چہ کہ انجینئرز کے مطابق چاند پرزیر زمین سرنگیں نکالنے کی مشینری کو چاند پر لیکر جانا آسان کام نہیں ہوگا،کیونکہ تعمیراتی مشنری کاوزن ایک مسئلہ ہے کیونکہ یہ مشینیں سینکڑوں ٹن وزنی ہیں،اس لئے ہلکی مشینوں کا استعمال کیا جائے گا اور ان مشینوں کو برقی طاقت دینے کیلئے ایکسپرٹس چھوٹا ایٹمی بجلی گھر لگانے کی تگ و دو کررہے ہیں ۔
ناسا حکام کا کہنا تھا کہ چاند پر بجلی گھر کا منصوبہ رواں دہائی کے آخر تک چاند پر عسکری و تعمیراتی مشن زکیلیے چاند پر انسانی قیام کو یقینی بنانا ہے۔فیس پاور پروجیکٹ کے سینئر سپروائزر’’ سباستیان کربی سیرو‘‘ نے کہا ہے کہ اس منصوبہ کا مقصد چاند پر ایک قابل اعتبار ہائی پاور سسٹم کا قیام ہے، جوچاند پر انسانی پروجیکٹوں کیلیے بیحد ضروری ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ چاند کی سطح پر جوہری ری ایکٹر کی تنصیب کامیاب رہی تو اگلا مشن مریخ کا ہوگا۔
’’ناسا ‘‘حکام کا کہنا ہے کہ چاند پر ایٹمی ری ایکٹر منصوبہ کا مقصد انسان کا چاند پر طویل عرصہ تک قیام ہے،سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چاند یا مریخ پر بجلی گھر ہونا لازمی ہیں تاکہ انسان چاند سمیت تمام اجرام ہائے فلکی پر طویل المدت قیام کرے اور چاند کی معدنیات سے فائدہ اٹھائے۔