بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کیلئے زمین ہتھیائے جانے کے بعد ہندوئوں کا حوصلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اترپردیش کی یوگی آدتیا حکومت کی سرپرستی میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے بابری مسجد کے یوم شہادت پر 6 دسمبر 2021ء کو متھرا کی شاہی جامع مسجد عید گاہ میں ہندو بھگوان کرشن کی مورتی نصب کرنے اور پوجا پاٹھ کا اعلان کر دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اگلے برس اتر پردیش میں ہر قیمت پر انتخابات جیتنے کیلئے مودی اور یوگی کی حکومتوں نے ہندو تنظیموں کو فری ہینڈ دینے کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ جس سے یو پی کی پوری ریاست میں کشیدگی پھیل گئی ہے اور غیر جانبدار صحافیوں نے اس واقعہ اور اعلان کو ایک نئے مسلم کش فسادات کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔
اگرچہ پولیس اور انتظامی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پورے ضلع بھر میں دفعہ 144 کے تحت سیکورٹی سخت کرنے کا اعلان کیا ہے اور کچھ فسادی ہندوئوں کو دھر لیا ہے۔ لیکن اندر کی خبر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس کا کارنامہ یہ نہیں کہ انہوں نے ہندو رہنمائوں اور فساد پھیلانے والوں کو گرفتار کیا ہے بلکہ انہوں نے تو 6 دسمبر2021ء کو بابری مسجد کی شہادت پر شاہی عید گاہ مسجد میں بھگوان کرشن کی مورتیاں رکھنے اور پوجا پاٹھ کا اہتمام کرنے والے ہندو رہنمائوں کو حفاظتی حراست میں لیا ہے تاکہ عین اس دن سے قبل ان کو رہائی دی جائے اور یہ ہندو فسادی کھل کر اپنی کارروائیاں کریں۔
اپنے بیان میں ہندو مہا سبھا کا کہنا تھا کہ 6 دسمبر کو ہندو ہجوم پہلے اس مقام پر آئے گا اور شاہی عیدگاہ جو اصل میں بھگوان کرشن کا مقام پیدائش ہے، کو ’گنگا جل‘ سے دھو کر پوتر کیا جائے گا اور پھر اس مسجد میں ’بھگوان شری کرشن جی‘ کی مورتی رکھی جائے گی اور بھجن، پوجا پاٹھ اور اشلوک کا اہتمام کیا جائے گا۔ ہندو مہا سبھا اصل میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی فسادی فرنٹ مین ہے۔ یاد رہے کہ شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے ضلع متھرا میں شاہی عید گاہ مسجد کی تعمیر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیرنے کروائی تھی۔ جو ایک مسجد ہونے کے ساتھ عید گاہ بھی ہے اور اسی مناسبت سے اس کو شاہی عید گاہ پکارا جاتا ہے۔ لیکن بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیموں کا مطالبہ رہا ہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد، متھرا کی تاریخی عیدگاہ مسجد اور بنارس کی گیان واپی مسجد ہندوئوں کے مندروں کو توڑ کر بنائی گئی تھیں۔ اس لئے وہ اس پر پھر سے مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان تینوں مساجد کا تعلق ریاست یو پی سے ہے اور ان میں سے تاریخی بابری مسجد کو پہلے ہی منہدم کیا جا چکا ہے۔ جہاں اب بھارتی سپریم کورٹ کی اجازت سے مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ لیکن ہندوئوں کا دل نہیں بھرا ہے اور ہندو تنظیموں کی نظریں متھرا کی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد پر جمی ہوئی ہیں۔
اگرچہ مسلم تنظیمیں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر ہندوؤں کے ان دعووں کو یکسر مسترد کرتی رہی ہیں اور ان کا عدالت میں بھی کیس تاحال سنا جارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو تنظیمیں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں کہ وہ مساجد کو منہدم کر کے ان مقامات پر منادر تعمیر کریں گی۔ خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس، بجرنگ دل، ہندو سینا، وشوا ہندو پریشد سمیت درجن بھر چھوٹی بڑی سخت گیر تنظیموں کا شاہی عید گاہ مسجد پر بھگوان کرشن کی مورتی رکھنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ یہی تنظیمیں اس تاریخی مسجد کے مقام پربھی مندر بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
بھارتی صحافی امرت سنہا کا کہنا ہے کہ ہندو تنظیمیں تو ہر وقت اورمقام کو اپنی طاقت کے استعمال اوراظہارکیلیے استعمال کرتی آئی ہیں۔ لیکن اس کیس میں ان کی دال شاید نہیں گلے گی۔ کیونکہ 1990ء کے ایک قانون کے تحت سوائے بابری مسجد کے گیان واپی اور شاہی عید گاہ مسجد متھرا اور دیگر مذہبی مقامات کو چھیڑا نہیں جا سکتا۔ اس مقدس و ممنوعہ فہرست میں وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھورا کی شاہی عید گاہ مسجد بھی شامل ہیں، جن کو قانون کے تحت مامونیت حاصل ہے۔ لیکن امرت سنہا کو خوف ہے کہ اس مسجد کو میڈیا کی خبروں میں لانے کا ایک مقصد مسلمانوں کو دبائو میں لینا اوراگلے 2022ء کے چنائو میں ہندو ووٹوں کو جمع کرنا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت بھی متھرا اورگیان واپی مسجدوں کا کیس عدالتوں میں چل رہا ہے۔ جو بی جے پی کی ’منتشر کرو اور لڑائو پالیسی‘ کا ثبوت بھی ہے۔
امرت سنہا کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندو تنظیموں نے عین اسی روز مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرکے دور میں تعمیر شدہ متھرا کی تاریخی عیدگاہ میں 6 دسمبر کے روز مورتی رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جو بابری مسجد کا یوم شہادت ہے۔ مطلب یہی ہے کہ ہندو تنظیمیں مسلم سماج پر دبائو بنائے رکھنا چاہتی ہیں اور ریاستی حکومت ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ہندی جریدے اَمر اُجالا کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ریاستی حکام نے ہندو تنظیموںکی جانب سے شاہی مسجد متھرا میں بھگوان کرشن جی کی مورتیاں رکھنے اور پوجا پاٹھ کے اعلان کے تناظر میں حفاظتی اقدامات کے تحت دفعہ 144 نافذ کر دی ہے اور چار افراد سے زیادہ کے جمع ہونے پر مکمل پابندی عائد ہے۔
ضلعی مجسٹریٹ متھورا نوین سنگھ چہل نے کہا ہے کہ متھورا میں کسی بھی شخص کو امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہندو تنظیم نارائن سینا کے ایک رہنما امیت کمار مشرا کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ضلعی جج نوین سنگھ نے سینئر سیکورٹی حکام کے ساتھ میٹنگ میں شاہی عیدگاہ اور اس کے پاس بنے مندر کی سیکورٹی کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا۔ نوین سنگھ کے مطابق سب سے پہلے ’اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا‘ نے عید گاہ مسجد کے اندر بھگوان شری کرشن کا مجسمہ رکھنے کی درخواست دی تھی۔ جسے مسترد کر دیا گیا۔ جس پر مشتعل ہندوئوں نے مظاہرہ کیا اور گزشتہ روز مسجد کو وہاں سے مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک ہندو یاترا کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ متھورا کی تاریخی شاہی عید گاہ کے پاس ہی ایک قدیم شاندار ہندو مندر بھی ایستادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو تنظیموں کا اصرار اس بات پر ہے کہ متھرا کی مسجد کو مسمار کیا جائے۔ جبکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر کی بنچ میں اس کیس کو سنا جارہا ہے۔