عمران خان:
پاکستانی شہریوں نے صرف 6 ماہ کے دوران 50 ملین ڈالر کی کرپٹو کرنسی خریدی۔ جبکہ اب تک مجموعی طور پر پاکستانیوں کی جانب سے مختلف قسم کی کرپٹو کرنسی میں کی جانے والی سرمایہ کاری اربوں ڈالرز تک ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستانی حکومت ایک ارب ڈالرکے امدادی قرضہ کیلئے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننے پر مجبور ہے۔ جس کے نتیجے نئے ٹیکسز کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر سے ملنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ چھ ماہ کے دوران مختلف نجی بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں سے منسلک 1064 افراد نے اربوں روپے مالیت کے زر مبادلہ کی 2923 ٹرانزیکشنز کیں۔ جس پر وزارت داخلہ، وزارت خزانہ اور وزارت صنعت و تجارت کے حکام کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد وزیر اعظم ہائوس کو سفارشات ارسال کی گئیں اور ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں باقاعدہ انکوائری رجسٹرڈ کرکے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ انکوائری میں غیر دستاویزی معیشت، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور رقوم کی غیر قانونی ترسیل کے پہلوئوں کو شامل کیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق اس ضمن میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں ریگولر انکوائری نمبر RE-955/2021 شروع کی گئی ہے۔ کیونکہ کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کے معاملات ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ معتبر ذرائع کے بقول مذکورہ انکوائری رجسٹرڈ کرنے کے بعد اس کی رپوٹ تمام متعلقہ وزارتوں اور پرائم منسٹر ہائوس کو ارسال کردی گئی ہے۔ تاکہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے جن افراد نے کرپٹو کرنسی خریدنے کیلئے ٹرانزیکشنز کی ہیں، ان کے خلاف اوران کے ذریعے کرپٹو کرنسی خریدنے والے اصل پس پردہ افراد کے خلاف مزید کارروائی کی منظوری لی جاسکے۔
ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ میں حکام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ابتدائی کارروائی میں مذکورہ 1064 بینک افسران اور ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں کے اکائونٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں اور ان کے ساتھ مالی لین دین کرنے والے افراد کے ڈیٹا کی چھان بین بھی شروع کردی گئی ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مذکورہ بینک افسران اور ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں نے 50 ملین ڈالر سے زائد کی ٹرانزیکشنز کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ آن لائن کرپٹو کرنسی فروخت کرنے والی جن کمپنیوں کو ارسال کیا، ان میں بنانس(Binace)، کوئن بیس (ثہینباسس)، کوئن ماما (Coinmama) اور دیگر سر فہرست کمپنیاں شامل ہیں۔
ایف آئی اے رپورٹ میں آگاہ کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک کے 2018ء میں جاری کردہ ایس آر او کے مطابق ورچوئل اور کرپٹو کرنسی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مالیاتی اداروں کو حکم دیا گیا تھا کہ ایسی ادائیگیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ مذکورہ ایس آر او میں اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں تمام بینکوں، مالیاتی اداروں اور ادائیگی کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور سربراہان کوکہا ہے کہ ورچوئل کرنسیز (وی سی)، جیسے بٹ کوائن، لائٹ کوائن، پاک کوائن، ون کوائن، داس کوائن، پے ڈائمنڈ وغیرہ یا انٹیل کوائن آفرنگز کو حکومت پاکستان نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔
اسی ایس آراو میں آگاہ کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے فرد یا کسی ادارے کو پاکستان میں ورچوئل کرنسی، کوائنس، ٹوکنز کے خریدنے، فروخت کرنے، تبادلے، جاری کرنے یا سرمایہ کاری کا اختیار یا لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔ مذکورہ ایس آر او کے مطابق مرکزی بینک نے تمام بینکوں پر ورچوئل کرنسی یا ٹوکنز کو استعمال کرنے، تجارت کرنے، رکھنے، ٹرانسفر کرنے، سرمایہ کاری کرنے فروغ دینے یا ادائیگی کرنے کی پابندی لگائی ہے اور انہیں صارفین کی ایسی ادائیگیوں کو وصول کرنے سے منع کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے ملکی مالیاتی ادارے کو بھی ورچوئل کرنسی کی ادائیگیوں کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر مالیاتی نگہداشت یونٹ کو مطلع کرنے کا حکم جاری کیا۔ تاہم اس ایس آر او کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بینکوں کے افسران اور ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں نے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والے شہریوں اور اپنے لئے، اربوں ڈالر کی ٹرانزیکشنز کا سلسلہ جاری رکھا جوکہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے دائرہ کار میں آنے والے مالیاتی اسکینڈل میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے زیر نگرانی انکوائری کے اندراج کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون کی ٹیموں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ کرپٹو کرنسی خریدنے کیلئے آن لائن ادائیگیاں کرنے والے ان 1064افراد کے خلاف علیحدہ علیحدہ چھان بین کریں۔ کیونکہ یہ ان افراد کی اکثریت کا تعلق کراچی اور پنجاب سے ہے ۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول بٹ کوائن سمیت کرپٹو کرنسی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے رجحان میں حالیہ عرصہ میں اضافہ ہونے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ تاہم بڑی وجوہات میں بٹ کوائن کی قدر میں یک دم کئی گنا اضافہ ہونا اور ملک میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط اور سفارشات پر شہریوں کی دولت اور رقوم کی ترسیل کی مانیٹرنگ میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ جس کیلئے ایف بی آر اور ایف آئی اے کی ٹیمیں متحرک ہیں اور دولت چھپا کر اثاثے بنانے والوں کے خلاف اینٹی بے نامی ایکٹ کے تحت بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب ایف بی آر نے بھی اپنے نظام میں 1 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ایسے شہریوں کے بینک اکائونٹس، جائیدادوں کی تفصیلات، ان کے اخراجات اور ظاہر کردہ آمدنی کا ریکارڈ جمع کرلیا ہے جو ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں کئی سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے فرنٹ مینوں کے علاوہ تاجروں، بلڈرز، اسٹیٹ ایجنٹوں، سونے کے بیوپاریوں نے بھی دولت پاکستان سے باہر نکالنے اور چھپانے کیلئے بٹ کوائن سمیت دیگر قسم کی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی ہے۔ تاہم اس سے ملک کو ڈالرز کے ذخائر میں انتہائی کمی، ڈالرکی قدر میں اضافے اور زر مبادلہ سے محرومی جیسے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس معاملے پر سنجیدگی سے کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔