برطانوی قانونی تنظیم اسٹوک وائٹ نے بھارتی آرمی چیف جنرل مکوند نروان کو جنگی مجرم قرار دے دیا ہے۔ اسٹوک وائٹ نے برطانوی پولیس کو 2 ہزار سے زائد ثبوت و شواہد اور کشمیریوں کے لواحقین کے بیانات پر مشتمل دستاویزات جمع کرواکر بھاتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کی نگرانی و سرپرستی میں ہزاروں کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔ گرفتار افراد پر جان لیوا تشدد کیا گیا۔ ان کو ماورائے عدالت دوران حراست ہلاک کیا گیا۔ جبکہ سینکڑوں کشمیریوں کو اغوا کے بعد غائب کردیا گیا۔’’ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق اسٹوک وائٹ فرم کا کہنا ہے کہ اس نے میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم یونٹ کو کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے ہیں۔
برطانوی لا فرم کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد اور ان کے اغوا سمیت حراستی قتل کے پیچھے بھارتی فورسز کے چیف جنرل منوج مکوند نروان اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا ہاتھ ہے۔ اسٹوک وائٹ کی رپورٹ میں 2020ء اور 2021ء کے درمیان پیش آنے والے چنیدہ واقعات کا ذکر شامل ہے۔
رپورٹ میں آٹھ سینئر بھارتی فوجی کمانڈرز پر مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کے شواہد بھی دستاویزی شکل میں پیش کئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2002ء میں بھارتی گجرات میں مسلم کش فسادات اور 2200 مسلمانوں کی شہادتوں کے سنگین واقعات میں حالیہ وزیر اعظم مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن دونوں کو عدالتی کارروائی سے بچالیا گیا۔
ادھر بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کی گرفتاری کیلیے متحرک لندن کی قانونی فرم کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک قانونی کارروائی کا مطالبہ اہم ہے۔ اس پر کارروائی کی جاتی ہے تو بھارتی افواج کے سربراہ اور آٹھ سینئر فوجی کمانڈرز سمیت وزیر داخلہ امیت شاہ کی گرفتاری کیلیے وارنٹس کا بھی اجرا کیا جاسکتا ہے۔ ان کے تمام برطانوی بینک اکائونٹس اور جائیدادوں کو منجمد کیا جاسکتا ہے۔
اسٹوک وائٹ کے ڈائریکٹر ہاکان کاموز کا کہنا ہے کہ انہیں اُمید ہے کہ ہماری دستاویزی رپورٹ، برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور ان اعلیٰ بھارتی حکام کو برطانیہ میں کسی بھی وقت داخل ہونے پر گرفتار کرنے پر قائل کردے گی۔ کیونکہ ان کے خلاف جنگی جرائم کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
برطانوی قانونی فرم کے مطابق ملزم بھارتی حکام کے برطانیہ میں مالیاتی اثاثہ جات بھی ہیں، جن کی مدد سے ان کی گرفت کی جاسکتی ہے۔ ہاکان کاموز نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملزم بھارتی حکام کیخلاف تحقیقات کریں اور ان کو گرفتار کرنے میں اپنا فرض ادا کریں۔
ہاکان کاموز کا کہنا ہے کہ بھارتی عسکری سربراہ اور وزیر داخلہ کی جانب سے جنگی جرائم کی وارداتوں پر یقین کرنے کی ایک پختہ وجہ یہ بھی ہے کہ بھارتی عسکری حکام مقبوضہ جموں و کشمیر میں عام شہریوں، صحافیوں اور سماجی کارکنان کیخلاف جنگی جرائم اور تشدد کی وارداتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ جب صحافیوں نے استفسار کیا کہ آیا یہ درخواست برطانوی پولیس کے جنگی جرائم یونٹ کو دینے کی کیا وجہ ہے؟ تو اسٹوک وائٹ کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ لندن پولیس کو یہ درخواست اس کے پاس موجود عالمی دائرہ اختیار کے تحت دی گئی ہے، جو دنیا بھر میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔
عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مسلح افواج، پولیس اور انٹیلی جنس یونٹس کی جانب سے گزشتہ تیس برس سے عام کشمیریوں اور چنیدہ عمائدین کو قتل، اغوا اور لاپتا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ پیلیٹ گنوں کے استعمال سے ہزاروں کشمیریوں کو اندھا کر دینے سمیت کشمیری خواتین کی عصمت دری کے ہزاروں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ لیکن بھارتی افواج اور حکومت اس ضمن میں کوئی ایکشن لینے کے بجائے صرف جعلی انکوائری کرتی رہی ہیں۔
برطانوی تنظیم کی رپورٹ میں کشمیری باشندوں محمد احسن اونتو اور ضیا مصطفیٰ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جیل میں قید ضیا مصطفیٰ کو 2021ء میں بھارتی حکام نے ماورائے عدالت بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کرشہید کیا۔ یاد رہے کہ 2018ء میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹس پر آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن بھارتی سرکار نے افواج اور اس کے تحت اداروں اور پولیس کیخلاف انکوائری کا مطالبہ یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرانہیں استثنیٰ حاصل ہے۔
برطانوی قانونی فرم اسٹوک وائٹ کی تحقیقات میں یہ چیز بھی ابھری ہے کہ کشمیرکی علیحدہ حیثیت کی واپسی اورکورونا دور میں بھارت کی جانب سے جنگی جرائم کی وارداتیں مزید تیز ہوچکی ہیں۔ رپورٹ میں گزشتہ برس بھارتی سیکورٹی حکام کے ہاتھوں سماجی کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کی تفصیلات بھی درج ہیں۔