اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن بنانے کی مخالفت کردی۔
سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلیے درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزارسے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ اصل آڈیو کدھر ہے ؟۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلیے درخواست پر سماعت کی ، درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ، اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزارنے عدالت میں کہا کہ عدالت نے فرانزک کمپنیوں کے نام اٹارنی جنرل سے مانگے تھے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک صاحب کی آڈیو پر ساری عدلیہ کمپرومائزڈ ہے، اس درخواست گزار میں اور رانا شمیم میں فرق کیا رہ گیا ہے؟ پیغام یہ دیا جا رہا ہے جج کو جدہ بھی بلائیں گے لاہور بھی اور مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑیں گے، چیف جسٹس پر حملہ کرایا جاتا ہے اس وقت انکوائری کی ضرورت نہیں پڑتی ، بریف کیس میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں انکوائری کا نہیں کہا جاتا، وزیراعظم کو پھانسی لگانے پر نہیں کہا جاتا، عدلیہ کمپرومائزڈ ہے، سارا معاملہ آکرعدلیہ کمپرومائزڈ ہونے کا اس کیس سے شروع ہوتا ہے، آڈیو اسکینڈل میں تحقیقات کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم اور نواز شریف کیس پراثر پڑے گا۔
اٹارنی جنرل نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ پر کمیشن بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں خارج کی جائیں کیونکہ زیر التوا کیس کو متاثرکر سکتی ہیں، کسی آڈیو کی تحقیقات کرانے کا اختیار حکومت کا ہے جسے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، عدالت کو اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ خطرناک بات کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید نے کہا کہ ایک طرف موقف ہے آڈیو اصلی دوسرا موقف ہے آڈیو گھڑی گئی، اس معاملے پر کیا عدالت اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال سکتی ہے؟ میرا موقف ہے عدالت اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں نہیں ڈال سکتی، کمیشن بھی بنا لیں تو کیا گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ زیر التوا اپیل متاثر نہیں ہو گی، اس بنیاد پر بھی یہ پٹیشن خارج ہونی چاہیے کہ درخواست گزار کا کہنا ہے اوریجنل آڈیو میرے پاس نہیں، دو فرانزک مارکیٹ میں ہیں احمد نورانی کہتا ہے میں نے فرانزک کرایا ایک چینل نے بھی فرانزک کرایا، چینل نے یہ بھی دکھایا کہ آڈیو ٹیپ کو کہاں کہاں سے جوڑا گیا، ایک اور آڈیو بھی آئی جس میں وزیراعظم ہاؤس سے صحافیوں کے حوالے سے کیا کیا زبان استعمال ہوئی۔
درخواست گزار وکیل صلاح الدین نے کہا کہ مولوی تمیز الدین، بھٹو کے عدالتی قتل، بریف کیسوں کے ذریعے چیف جسٹس کی فراغت، دوسرے جیسے واقعات کی انکوائری تاریخ میں ہوئی ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، اگر ہم ہر چیز کو تاریخ کے فیصلے پر چھوڑیں گے تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی، آڈیو ٹیپ معاملے میں خود کو متاثرہ فریق سمجھتا ہوں ، نواز شریف ہو یا اللہ رکھا ہو ، میرا مسئلہ میرے چیف جسٹس کا کردار ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں صلاح الدین ایڈوکیٹ اور بار کو ایک پیشکش کرتا ہوں، یہ کہتے ہیں اللہ رکھا کے کیس پر بھی یہ اتنے ہی رنجیدہ ہوتے، چلیں پھر پہلے سجاد علی شاہ کو ہٹانے کی انکوائری کراتے ہیں، یہ معاملہ تو یوں بھی کہیں زیرالتوا نہیں۔صلاح الدین نے کہا کہ اٹارنی جنرل اب بالکل ہی گڑے مردے اکھاڑنے کی بات کر رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر حکومت کے لیے یہ رستہ کھولیں گے تو پھر وہ زیر التوا کیسز میں مداخلت شروع ہو جائے گی، یہ کام بارکا ہے اس کو ہی یہ کام کرنا چاہیے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو تحقیقات کیلیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں احتساب کیلیے حاضر ہیں،آپ کا اس عدالت سے کوئی شکوہ ہے تو ہمیں بتائیں۔