امت رپورٹ:
حرم نبویؐ کی حرمت کی پامالی جیسے قبیح فعل کو دو دن تک دفاع کرنے والی پی ٹی آئی نے عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہوکر بالآخر ان بدبختوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے، جنہوں نے اپنے دیوتا (عمران خان) کو خوش کرنے کی خاطر اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر ڈالی۔ عبرت کا مقام ہے کہ جس پارٹی کے سربراہ کی چاہت میں ان گستاخوں نے روضہ رسولؐ کے نزدیک سیاسی نعرے بازی کی اور گالیاں نکالیں، اب نہ صرف ان کی پارٹی نے ان سے منہ موڑ لیا ہے بلکہ انہیں ممکنہ طور پر سعودی قوانین کے تحت سخت سزائوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ جبکہ سعودی سرزمین ان کے لئے تنگ ہوگئی ہے۔
ان گستاخوں کو کیا سزا ملتی ہے؟ اس بارے میں تاحال ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف غیر مصدقہ خبریں ضرور چل رہی ہیں، البتہ سعودی حکام نے سرکاری سطح پراب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کرنے پر گرفتار افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ تاہم سعودی عرب میں سرکاری ذمہ داریاں نبھانے اور وہاں کے قوانین سے واقف ایک سابق پاکستانی افسرکا کہنا ہے کہ ’’سعودی قوانین بہت سخت ہیں۔ اس حوالے سے وہ کسی سے رعایت نہیں کرتے۔ حالیہ واقعہ کے ذمہ داران کو سخت سزا دے کر سعودی حکام یہ مثال بھی قائم کرنا چاہیں گے کہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کرسکے۔‘‘
مذکورہ سابق افسر کے بقول خاص طور پر مکہ اور مدینہ کی حرمت سے متعلق سعودی حکام کی Zero Tolerance Policy ہے کہ ان دونوں مقدس مقامات پر نظم و ضبط اور تقدس کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جائے گا، چاہے یہ خلاف ورزی کرنے والا کتنا ہی بارسوخ کیوں نہ ہو۔ حرمین شریفین کے حوالے سے یہ سعودی عرب کی ریاستی پالیسی ہے۔ سابق افسر کے بقول اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی حکام ، مسجد نبویؐ کے احاطے میں شور شرابا اور گالیاں نکالنے والوں کی سزا کو ایک مثال بنائیں گے کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔ یہ ان عناصر کی بدبختی ہے کہ جن کے اشارے پر انہوں نے یہ سب کچھ کیا، اب وہی ان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ قبیح فعل کرنے والوں کو ناصرف اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑے گی بلکہ ان پر سعودی سرزمین بھی تنگ ہوجائے گی ۔ ممکنہ طور پر سعودی عرب میں ان کا داخلہ بند کیا جاسکتا ہے اور پھر عاقبت کا معاملہ اپنی جگہ ہے۔ اس سارے قصے میں عبرت کا پہلو نمایاں ہے۔ اور تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے لئے یہ سبق بھی ہے کہ اپنے لیڈر کی شخصیت پرستی میں اتنے آگے نہ نکل جائیں کہ دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرلیں۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ مسجد نبویؐ کے تقدس کی پامالی پر گرفتار ہونے والے بدبختوں میں وہ شخص بھی شامل ہے، جس نے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی کے بال کھینچے تھے۔ اس کی شناخت ویڈیو فوٹیج کے ذریعے کی گئی۔ اب تک ہونے والی گرفتاریاں ویڈیو فوٹیج کی مدد سے کی گئی ہیں۔ مزید شناخت ہونے پر گرفتاریوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ اب تک سعودی حکام نے صرف پانچ افراد کو حراست میں لینے کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب ملک گیر عوامی ردعمل کے نتیجے میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی جانب سے مسجد نبویؐ کے واقعہ پر لولے لنگڑے طریقے سے اظہار افسوس کیا جارہا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت سب رہنما مذمت کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان میں علی محمد خان سابق حکمران جماعت کے وہ پہلے رہنما تھے، جنہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’’مسجد نبویؐ یا اس کے احاطے میں کسی بھی صورت نعرے بازی مناسب نہیں۔ یہ آداب کے خلاف اور سخت منع ہے۔‘‘ لیکن موصوف یہاں بھی ڈنڈی مارگئے۔ انہوں نے یہ قبیح فعل کرنے والوں کی دو ٹوک مذمت کے بجائے منافقانہ انداز میں اسے ’’عوامی ردعمل‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح جب عوامی ردعمل بڑھنے لگا تو دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی گول مول طریقے سے شرمناک واقعہ پر اظہار افسوس کرنے لگے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کی کہ ’’مسجد نبویؐ حرم پاک میں جو کچھ ہوا، نہیںہونا چاہیئے تھا اور جو ہوا افسوس ناک ہے۔ احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر مسجد نبویؐ سمیت مقدس مقامات کی عزت اور احترام ہم سب پر لازم ہے۔ اور یہ کہ تحریک انصاف کا بحیثیت جماعت اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ تاہم اسد قیصر نے بھی افسوس کا اظہار تو کیا، بدبخت عناصر اور واقعہ کی مذمت نہیں کی۔ اس دوران سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ اب تک اس شرمناک واقعہ پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیوں خاموش ہیں؟ آخر کار ممکنہ طور پر مشیروں کی جانب سے صورتحال کی سنگینی کا احساس دلانے پر واقعہ کے ایک روز بعد عمران خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ مقدس مقامات پر آوازیں کسنے کی ہدایت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن موصوف نے بھی یہ قبیح فعل کرنے والوں کی مذمت کرنے کے بجائے اسے لوگوں کا اپنا ردعمل قرار دیا۔ واحد ایک سابق وزیر مذہبی امور نور الحق قادری تھے، جنہوں نے مسجد نبویؐ کے احاطے میں ہونے والے واقعہ کی پر زور مذمت کی۔
ایک ایسے وقت میں جب عوامی ردعمل کے خوف سے پی ٹی آئی نے مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کرنے والے بدبختوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے، شیخ رشید اور منہ سے اجابت کرنے والے شہباز گل کی ڈھٹائی اپنی جگہ برقرار ہے۔ فواد چوہدری بھی ان کی صف میں شامل ہیں۔ ان میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اب بھی گستاخان مسجد نبویؐ کی حمایت کر رہے ہیں اور نہایت ڈھٹائی سے ان کا کہنا ہے کہ روضہ رسولؐ پر جو کچھ ہوا، وہ پاکستانی مسلمانوں کے جذبات تھے۔ یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ شیخ رشید نے سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کی تاحال تردید نہیں کی ہے، جس میں وہ مختلف لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اور اس موقع پر مبینہ طور پر مسجد نبویؐ میں ہونے والے واقعہ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی ہوٹل میں ہونے والی نشست میں موجود ایک شخص شیخ رشید سے کہہ رہا ہے کہ ’’ہم نے اپنے ورکروں کو یہی کہا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔آپ نے حوصلہ نہیں ہارنا۔ اگر آپ کو پکڑ بھی لیا جاتا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں خان (عمران خان) سے محبت ہے اور اس کی محبت میں ہم سب لوگ یہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پہلے ہی ہم نے زبردست ٹرینڈ چلایا ہوا ہے۔‘‘ اس جملے کے اختتام پر شیخ رشید محفل کے شرکا کو کہتے ہیں کہ چلیں ایک ایک کپ چائے پی لیتے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو کلپ مسجد نبویؐ کے واقعہ سے کتنے دن پہلے کا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر اسے مسجد نبویؐ کے واقعہ کی منصوبہ بندی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اور پھر یہ کہ شیخ رشید کی جانب سے بھی تاحال اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی ہے۔ اس ویڈیو کے مسجد نبویؐ کے واقعہ کے ساتھ لنک کواس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ واقعہ سے قبل شیخ رشید کا یہ ویڈیو بیان ریکارڈ پر ہے، جس میں وہ سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے والے وفد کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ لوگ جب حرم پاکؐ میں جائیں گے تو دیکھئے گا، لوگ ان سے کیا سلوک کرتے ہیں۔‘‘
سوشل میڈیا پر یہ چلتا رہا ہے کہ مسجد نبویؐ کے واقعہ کی منصوبہ بندی میں عمران خان اور شیخ رشید ملوث ہیں۔ جبکہ ان کی ہدایت پر عمل کرنے کے لئے برطانیہ سے پی ٹی آئی کے رہنما صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو اور انیل مسرت آئے تھے۔ یہی بات نون لیگ کے رہنما بھی کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان اور چیکو نے واقعہ میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے ۔
تاہم اپنے دور میں ایک طاقتور اور ایماندار سرکاری افسر کے طور پر معروف ذوالفقار احمد چیمہ اس وضاحت کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سارے واقعہ کے ماسٹر مائنڈ چار لوگ تھے، جن میں عمران خان اور شیخ رشید شامل ہیں۔
ذوالفقار چیمہ آئی جی سندھ، آئی جی موٹر وے پولیس اور امیگریشن و پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جب وہ گوجرانوالہ کے آر پی او تھے تو انہوں نے ننھو گورایہ سمیت کئی بدنام زمانہ مجرموں کا قلع قمع کیا، جس سے ضلع میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بیوروکریسی میں ذوالفقار چیمہ کی بہت عزت ہے، چونکہ وہ مختلف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، لہٰذا ریٹائر ہونے کے باوجود خاصے باخبر رہتے ہیں اور ان کے پاس اندر کی خبریں ہوتی ہیں۔
مسجد نبویؐ کے واقعہ کے بارے میں ذوالفقار احمد چیمہ نے اپنے فیس بک اکائونٹ میں لکھا ہے ’’دربار رسالت مآبؐ پر جو شیطانی کھیل کھیلا گیا، اس کے مجرموں کی شناخت ہورہی ہے۔ قابل اعتماد ذرائع اور ایجنسیوں کے مطابق اس ناپاک اور مکروہ کھیل کے رائٹر اور پروڈیوسر عمران احمد نیازی اور شیخ رشید احمد تھے۔ جبکہ فنانسر اور ڈائریکٹر جہانگیر چیکو اور انیل مسرت تھے۔ اداکار پکڑے جاچکے ہیں۔ نبی اکرمؐ کی آرام گاہ اور مسجد کی حرمت پامال کرنے والے مجرم ان شا اللہ دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا ہوں گے۔‘‘ ذوالفقار چیمہ نے مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ ’’او سیاہ بختو ، تم نے عمران خان کو خوش کرنے کے لئے دربار رسالت مآبؐ کا بھی خیال نہ کیا۔ تم کس مذہب کے ماننے والے ہو کہ روضہ رسولؐ کی توہین کرتے ہو اور اس پر شرمسار ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہو۔ پھر یہ کہ اپنی شرمناک حرکت کا جواز پیش کرتے ہو۔‘‘ ذوالفقار احمد چیمہ نے اس قبیح فعل کے ذمے داروں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔