اقبال اعوان:
سندھ حکومت شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹرز کے چنگل سے نکالنے میں ناکام ہوگئی۔ ایک جانب پیٹرولیم کی قیمت میں کمی کے باوجود بسوں، کوچوں، مزدا کے کرائے من مانے وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب رکشے اور ٹیکسی والوں نے فاصلوں کی نشاندہی کرکے کرائے کا تعین کرنے والے میٹرعرصے سے نکالے ہوئے ہیں اور موقع کی نزاکت کا فائدہ اٹھا کر من مانے کرائے وصول کیے جارہے ہیں۔ شہری گاڑیوں کی کمی کے باعث زائد کرائے دے کر بھی خطرناک حد تک چھتوں پر یا لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت رکشہ، ٹیکسی کے میٹر لگوانے اور کرائے کی وصولی کے حوالے سے سخت اقدامات کا متعدد بار اعلان کر چکی ہے۔ تاہم عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں شہریوں کے لیے پریشانی کی بات ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ جس میں بس، مزدا، کوچ شامل ہے، دن بدن ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ 10 سال قبل بسوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد تھی جو اب بمشکل 10 سے 15 ہزار تک رہ گئی ہے۔ جبکہ 2011ء میں بڑی بسوں، کوچوں، ویگنوں، ٹیکسی، رکشوں کے کرائے فکس کیے گئے تھے۔ اس کے بعد ٹرانسپورٹر مہنگائی بڑھنے، تیل، گیس کی قیمتیں بڑھنے کے بعد خود کرائے بڑھاتے رہے اور یہ شعبہ چوں چوں کا مربہ بن گیا۔ شہری بیشتر گاڑیوں کے روٹ ختم ہونے یا کم اسٹاپ تک ہونے کی وجہ سے کئی گاڑیاں بدل کر منزل مقصود تک آتے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کی کمی کے باعث گاڑیاں زیادہ وقت کے بعد آتی ہیں اورمجبور شہری گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر یا لٹک کرخطرناک حد تک سفرکرنے پر مجبور ہیں۔ بسوں، مزدا والوں اورکوچ والوں نے کرائے من مانے وصول کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ایک اسٹاپ کا کرایہ کم از کم 20 روپے، ابتدائی اسٹاپ سے آخری اسٹاپ تک 70 سے 80 روپے کرایہ وصول کررہے ہیں۔
شہریوں سے جھگڑے، تلخ کلامی معمول ہے۔ بسوں، کوچوں، مزدا والے سرکاری کرائے کی فہرست آویزاں نہیں کرتے ہیں کہ کرائے 2011ء میں بڑھائے گئے تھے۔ اس کے بعد ٹرانسپورٹر کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کرایہ خود بڑھاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب کراچی میں شہریوں کو لوٹنے والی چنگ چی رکشہ مافیا ہے۔ شہر میں چنگ چی رکشوں نے شہر کے اکثریتی حصوں کی سڑکوں پر قبضہ جما لیا ہے اور غیر قانونی طور پر روٹ بنا کر اڈے بنا لیے ہیں۔ ان کا کم از کم کرایہ 20 روپے اور آخری اسٹاپ تک 80 روپے کر دیا گیا ہے۔ سرجانی سے ڈرگ روڈ اور کورنگی نمبر 5 تک کے چنگ چی والے 80 روپے وصول رکتے ہیں۔ ان چنگ چی رکشوں میں میٹر نہیں لگے کہ مسافت کا ظاہر کر سکیں اور فی کلو میٹر چارجنگ کے حساب سے کل کرایہ بتا سکیں۔
شہر میں چنگ چی رکشوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ جبکہ چار سیٹر دو اسٹروک اور سی این جی رکشوں اور کالی پیلی، یلو کیب ٹیکسیوں والوں نے بھی میٹر نکال دیے ہیں اور موقع کے حساب سے کرائے وصول کررہے ہیں۔ اسپتالوں، ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ، کوچ بس اڈے، تفریحی مقامات اور دیگر اہم جگہوں پر کرائے زیادہ وصول کررہے ہیں۔ چند سال قبل تک ان رکشوں، ٹیکسیوں میں میٹر لگے تھے اور مسافر کل کرایہ دیکھ کر رقم ادا کرتے تھے۔ تاہم سی این جی، ایل پی جی، پیٹرول مہنگا ہونے، مہنگائی بڑھنے پر انہوں نے من مانے کرائے وصول کرنے کے لیے میٹرز نکال دیئے گئے۔ اس طرح دگنے اور تین گنا کرائے وصول کررہے ہیں۔ کالی پیلی ٹیکسیاں شہر میں دو تین ہزاراوریلو کیب چار ہزارکے قریب ہیں۔
سندھ حکومت نے چار سال قبل شہریوں کو سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے، ٹیکسیوں اور رکشوں کے میٹر لگانے کے حوالے سے مہم چلانے اور سختی سے عمل درآمد کرانے کے متعدد اعلانات کیے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بچی کھچی ٹرانسپورٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ شہری من مانے کرائے ادا کر کے بھی اچھی طرح سہولت سے منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ بسوں، گاڑیوں، چنگ چی رکشوں والوں سے شہری کرائے کے حوالے سے لڑتے نظر آتے ہیں اور سندھ حکومت موثر اقدامات نہیں کر سکی ہے۔ گاڑی والوں کی جانب سے سہولتوں کی فراہمی مذاق بن گئی ہے۔ نجی وین سروس اور بائیکیا میں مہنگے کرائے دینے والوں میں متوسط طبقہ تو شامل ہے غریب مزدور، فیکٹری ورکرز یا دفاتر میں کام کرنے والا غریب طبقہ شامل نہیں ۔