کراچی میں دوسرے شہروں سے قربانی کے جانوروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں کی نسبت آمد میں تیزی نہیں ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ جانوروں کی قیمتوں میں 50 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب مڈل کلاس طبقے نے اجتماعی قربانی کے لیے رفاہی اداروں، مدارس، دینی جماعتوں اور علاقہ کمیٹیوں کو بکنگ کرانا شروع کر دی ہے۔
چھیپا فائونڈیشن نے گائے میں حصہ داری کی رقم گائے کی جسامت کے لحاظ سے 10 سے 15 ہزار روپے رکھی ہے۔ جبکہ عالمگیر ٹرسٹ نے گائے کا حصہ 17 ہزار 950 روپے مقرر کیا ہے۔ اس بار رفاہی ادارے مستحق اور غریب افراد میں عید کے دنوں میں زیادہ گوشت بانٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ چھیپا نے ملک بھر میں ایک کروڑ افراد کو گوشت دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ سیلانی، عالمگیر سمیت دیگر ادارے بھی پلاننگ کر رہے ہیں کہ موجودہ خراب معاشی حالات میں قربانی نہ کرنے والوں کی تعداد کم ہے اور مستحق و غریب طبقہ بڑھ چکا ہے۔ اس لیے انہیں زیادہ سے زیادہ گوشت فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب اس بار بکروں کے ریٹ بھی گزشتہ برسوں کی نسبت 50 فیصد سے زائد ہوں گے۔ چھیپا والے قربانی کا بکرا 15 سے 30 ہزار میں بک کر رہے ہیں۔ جبکہ عالمگیر والے 21 ہزار 550 روپے میں بکرا کاٹ کر دیں گے۔ تیل، گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے جہاں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے، وہیں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھاگ دوڑ کررہا ہے۔ اوپر سے قربانی کا فریضہ سر پر آچکا ہے۔ ادھر قربانی کا جانور زیادہ تر سندھ اور پنجاب سے کراچی میں آتا ہے۔ سندھ کے اندر گائے میں پھیلی بیماری لمپی اسکن ڈیزیز LSD پھیلنے سے 50 ہزار سے زائد جانور بالخصوص گائے، بیل، بچھڑے متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں میٹھے پانی کے نہری نظام کے متاثر ہونے سے جہاں خشک سالی پھیلی، وہیں جانور بھوک سے مرتے رہے۔ اس لیے اس مرتبہ سندھ سے گائے، بیل کم آئیں گے۔ اور پنجاب سے بڑا جانور زیادہ آئے گا۔ ٹرانسپورٹ کرائے کے مسلسل اضافے، چارہ، دانہ، دوائیاں مہنگی ہونے اور دیگر مسائل پر اخراجات زیادہ آئیں گے۔ لہٰذا گزشتہ سال کی نسبت جانوروں کے ریٹ زیادہ ہوں گے۔ دوسری جانب بیماری کے علاوہ کراچی سے دوسرے ملکوں کو گوشت فروخت کرنے، ایران اور افغانستان میں جانوروں کی بڑھتی اسمگلنگ نے جانوروں کی قلت کر دی ہے۔ اس وجہ سے کھپت زیادہ ہونے پر جانور زیادہ ریٹ پر فروخت ہوں گے۔ سپر ہائی وے مویشی منڈی میں زیادہ جانورآرہے ہیں۔
ملیر، بلدیہ اور لانڈھی کی سال بھر لگنے والی کٹائو منڈیوں میں جانور کم آرہا ہے۔ بقر عید سے 20 روز قبل تک جانوروں کی قیمتوں کا ٹھیک طرح معلوم ہو گا۔ یہ بات واضح ہے کہ جہاں معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ وہیں جانوروں کا قربانی کے لیے حصول مشکل ہورہا ہے۔ اور مڈل کلاس کے لوگ اجتماعی قربانی کرنے کے لیے رفاہی اداروں، مساجد، مدارس، دینی جماعتوں، این جی اوز اور علاقہ کمیٹیوں سے رجوع کررہے ہیں۔ گزشتہ سال جس طرح گہما گہمی تھی اس بار اتنی نہیں ہے۔ ورنہ ان دنوں میں اجتماعی قربان کے حوالے سے بینرز، پینا فلیکس، پوسٹرز لگ جاتے تھے۔ شہر میں تاحال صرف چھیپا اور عالمگیر ٹرسٹ کے بینرز لگے ہیں۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے چھیپا فائونڈیشن کے ترجمان چوہدری شاہد حسین کا کہنا تھا کہ اس بقر عید پر زیادہ توجہ مستحق اور غریب خاندانوں میں گوشت بانٹنے پر ہوگی۔ ارادہ تو کراچی سمیت ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد کے خاندانوں میں گوشت بانٹنے کا ہے۔ تاہم اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب گائے میں حصہ داری کرنے والوں کو دو حصوں میں رکھا گیا ہے۔ 70 ہزار روپے مالیت کی گائے کا حصہ 10 ہزار روپے رکھا گیا ہے۔ جبکہ ایک لاکھ 5 ہزار روپے والی گائے کا حصہ 15000 ہزار روپے رکھا گیا ہے۔ بکرا 15 اور 30 ہزار کا بک کرا سکتے ہیں۔ اسی طرح پوری گائے بھی بک کرا سکتے ہیں۔
عالمگیر ٹرسٹ والوں نے بھی شہر میں بینرز لگائے ہیں کہ گائے کی حصہ داری 17 ہزار 950 روپے، بکرا 21 ہزار 550 اور بکری 17 ہزار 550 روپے میں بک کی جارہی ہے۔ سماجی رہنما مظہر ہانی کا کہنا تھا کہ اس بار گائے کی کمی ہے اور ریٹ زیادہ آرہے ہیں۔ وہ ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت گائے لے کر اجتماعی قربانی کریں گے۔ اور ریڑھی گوٹھ اور دیگر ساحلی علاقوں میں غریب ماہی گیروں کے خاندانوں میں گوشت تقسیم کریں گے۔
مویشی تاجروں کا کہنا ہے کہ اس بار قربانی کے جانوروں کی بہت کم تعداد کراچی آئے گی۔ ہر سال لگ بھگ 20 سے 30 لاکھ جانور قربانی کے آتے ہیں۔ جبکہ پانچ لاکھ سے زائد جانور کراچی کے کیٹل فارمز، باڑوں سے لائے جاتے ہیں۔ اس وقت ایران و افغانستان جانور بھیجنے یا بیرون ملک گوشت سپلائی کرنے والے ادارے سرگرم ہیں۔ جبکہ منڈیوں سے سستا جانور لے کر باڑوں میں مال مہنگا ہونے تک رکھنے والے منافع خور بھی سرگرم ہیں۔