ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا اور اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل اورایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگرفریقین کو نوٹس جاری کردیا۔فائل فوٹو

آرٹیکل 63 اے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا مطلب ہے ہدایات پارلیمانی پارٹی سے آئے گی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیخلاف پرویز الہی کی درخواست پر کی۔ حمزہ شہباز کے وکیل پیش ہوئے اور اپنے موکل کا جواب عدالت میں جمع کروادیا۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پرآ گئے اورآرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحران سے گریزکیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے بھی عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کن نکات پرفل کورٹ سماعت کرے؟۔ عرفان قادر نے کہا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہے۔

چیف جسٹس نے عرفان قادر کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے، اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں، عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپکی معاونت کیلیے آئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟، آرٹیکل 63 اے کا سادہ مطلب ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی سے آئے گی۔

وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیکر رولنگ دی، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں، پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا، آرٹیکل 63 اے کے مختصر فیصلے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی پر بحث موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے، پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، میرے نزدیک مختصر فیصلہ بڑا واضح ہے۔